جون ۵۔ 2021

احمد سعید


لاہور

لاہور ہائی کورٹ رجسٹرار آفس نے صحافی حامد میر کے خلاف بغاوت کی کروائی شروع کرنے کی درخواست کو اعتراضات لگا کر واپس کر دی ہے. رجسٹرار آفس نے اعتراض لگایا کہ درخواست گزار پہلے قانون میں  دستیاب فورمز سے رجوع کرے.

مذکورہ درخواست ایک وکیل سردار فرخ مشتاق نے  اپنے وکیل ندیم سرور کے ذریعے دائر کی تھی اور یہ استدعا کی تھی کہ حامد میر نے اٹھائیس مئی کی تقریر میں ایک ‘منظم ادارے’ کے خلاف نفرت انگیز تقریر کی تھی لیکن وفاقی حکومت نے حامد میر کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی لہذا عدالت وزارت داخلہ کو یہ حکم دے کہ وہ سینئر صحافی کے خلاف بغاوت کے الزام کے تحت مقدمہ درج کرے.

واضح رہے کہ حامد میر نے اپنی تقریر میں نہ تو کسی ادارے نہ ہی کسی حاضر سروس شخصیت کا نام لیا تھا.

اس سے پہلے گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل  منظور قادر بھنڈر نے ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں حامد میر اور عاصمہ شیرازی کے خلاف

نفرت انگیز تقریر کرنے کے الزام میں بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کی درخواست دائر کر دی ہے.

اس حوالے سے جب وائس پی کے نے ان سے پوچھا کہ انھیں حامد میر کی تقریر کے کس حصے پر اعتراض ہے تو منظور قادر بھنڈر کا کہنا تھا کہ ‘جہاں پر انھوں نے جنرل باجوہ کا نام لیا ہے. جب ہم نے انھیں بتایا کہ اس تقریر میں تو جنرل باجوہ کا نام لیا ہی نہیں گیا تو درخواست گزار کا مؤقف تھا کہ پھر ان سے درخواست لکھتے ہوئے ‘انیس بیس’ ہو گئی ہو گی.’

مجموعہ ضابطہ فوجداری کے سیکشن 196 کے تحت غاوت سمیت ریاست مخالف دیگر جرائم کا مقدمہ صرف وفاقی یا صوبائی حکومتیں ہی درج کروا سکتی ہیں۔

بار کونسلز کی مذمت

پاکستان بھر کی مختلف بار کونسلز اور ایسوسی ایشنز نے حامد میر کو جو نیوز سے آف ایئر کرنے اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف قراردادیں منظور کی ہیں.

سندھ بار کونسل نے چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد سے مطالبہ کیا کہ وہ حامد میر پر اپنے ٹاک شو کی میزبانی پر پابندی کا از خود نوٹس لینے پر غور کریں۔ قرارداد میں وزارت اطلاعات سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ حامد میر کے ٹاک شو کو اس کی اصل شکل میں  فوری طور پر بحال کیا جائے اور  صحافیوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔

 سندھ بار کونسل نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ میڈیا سے وابستہ لوگوں کی شکایات کو دور کرنے کے لئے موثر اقدامات کرے اور خود کو  وفاقی حکومت کے ہاتھ میں ایک آلے کی حیثیت سے بجائے اپنی خود مختاری ثابت کرے.

سندھ بار کونسل نے بھی یہ بھی واضح کیا کہ وہ میڈیا کی آزادی اور صحافیوں کے تحفظ کے لئے کسی بھی حد تک جائیں گئے.

خیبر پختون خواہ بار کونسل نے بھی ایک قرارداد کے ذریعے صحافیوں کے خلاف حملوں کی شدید مذمت کی ہے

خواتین صحافیوں کا حامد میر کی بحالی  کا مطالبہ

147 خواتین صحافیوں اور اتحادیوں کے ایک گروپ نے بھی ایک عوامی بیان جاری کیا جس میں حامد  میر کو ان کے پروگرام کی میزبانی  ہٹانے کی مذمت کی گئی ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ میڈیا تنظیموں کو اپنے فرائض کی انجام دہی کے لئے اس طرح کے زبردست دباؤ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ .

خواتین صحافیوں کے بیان میں صحافیوں کے خلاف براہ راست ، بالواسطہ اور ڈھکے چھپے اقدامات میں تیزی سے بڑھنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ، اور کہا گیا کہ ان اقدامات سے پاکستانی میڈیا کو نقصان پہنچ رہا ہے.

بیان میں مطالبہ کیا گیا کہ “صحافیوں کو آزادانہ طور پر اور بلا خوف و ہراس کے کام کرنے کی اجازت ہونی چاہئے۔ صحافیوں کو ان کے کام کے بدلے ہونے والے حملوں سے بچانا چاہئے۔ اور اسد طور پر حملہ کرنے والوں سمیت صحافیوں پر حملوں کے مرتکب  تمام افراد کو بھی جوابدہ ہونا چاہئے۔