نومبر ٢٢ ٢٠٢٠

تحریر: احمد سعید


فیصل آباد

دیاابھی کراچی میں مبینہ طور اغوا اور جبری طور پر مذہب تبدیلی کا نشانہ بننے والی آرزو راجہ کے کیس کا شور نہ تھام پایا تھا کہ پنجاب کے شہر فیصل آباد میں ایک اور مسیحی لڑکی فرح شاہین کے ساتھ بھی آرزو راجہ جیسے واقعہ  کی باز گشت سوشل میڈیا پر سنائی دی جانے لگی.

فرح شاہین، جس کی نادرا کے بے فارم  اور  پیدائش سرٹیفکیٹ کے مطابق عمر ساڑھے بارہ سال ہے، کو اس سال پچیس جون کو ایک شخض خضر حیات جس کی عمر مبینہ طور پر چالیس سال سے زیادہ ہے نے مبینہ طور پر اغوا کر لیا تھا اور تین دن بعد اٹھائیس جون کو   پانچ سو روپے حق مہر کے عوض فرح کے ساتھ نکاح کر لیا تھا.

مگر وائس پی کے ڈاٹ نیٹ کو حاصل ہونے والے نکاح نامہ میں بہت سے قانونی تقاضوں کو مدنظر نہیں رکھا گیا کیوں کہ اس میں نہ تو لڑکی کی عمر درج ہے اور نہ ہی اسکا شناختی کارڈ نمبر. فرح شاہین اپنے چھ بہن بھایئوں میں دوسرے نمبر پر ہیں اور ان کی والدہ کا پانچ سال پہلے انتقال ہو گیا تھا اور ٹیب سے وہ ہی اپنے چھوٹے بہن بھایئوں کی دیکھ بھال کرتی تھی.

فرح کے والد آصف مسیح کہتے ہیں کہ ان کے چھوٹے بچے اپنی بہن کو بہت یاد کرتے ہیں اور انھیں کہتے ہیں ہیں وہ ان کی بہن کو گھر واپس لے آئیں.

ان کا مزید کہنا تھا کہ ا پنی بیٹی کے مبینہ  اغوا  کے فوری بعد انہوں نے  پولیس کو مقدمے کے اندراج کے لئے ایک درخواست دی مگر پولیس نے کوئی کاروائی نہ کی.” میں پولیس والوں کے پاس جاتا رہا مگر انہوں نے میری کوئی بات نہیں سنی، انھیں میں نے بتایا کہ میری بچی  اغوا ہو گی ہے، میں نے سی پی او کو بھی درخواست دی مگر وہاں بھی میری سنوائی نہ ہوئی، پھر میں نے رٹ دائر کی تب کہیں جا کے میرا پرچہ درج ہوا… اس تمام تگ و داو میں تقریباً چار مہینے لگ گئے تھے.”آصف کے مطابق مقدمے کے اندراج کے بعد بھی پولیس نے کوئی کاروایی نہ کی بلکہ الٹا اسے ہی یہ کہ کر ہراساں کیا گیا کہ لڑکی کو تم نے خود کہیں چھپایا ہوا ہے.

تاہم جب اس معاملے پر فیصل آباد کی مسیح برداری نے احتجاج کیا تو پولیس نے لڑکی کو مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کر دیا جہاں پر بارہ سالہ فرح نے دفعه ایک سو چونسٹھ کا بیان قلمبند کروایا اور کہا کہ اس نے اپنی مرضی سے خضر حیات سے شادی کی ہے، جس پر عدالت نے بچی کو شوہر کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی.

 واضح رہے کہ چائلڈ میرج ریسٹریتنٹ ایکٹ کے تحت صوبہ پنجاب میں سولہ سے کم عمر کسی بھی لڑکی کا شادی کرنا قانوناً جرم ہے مگر نہ تو اس حوالے سے پولیس نے کوئی کاروآیی کی نہ ہی متعلقہ مجسٹریٹ نے لڑکی کی عمر  کو ملحوظ خاطر رکھا.

آصف کا کہنا ہے کہ اس سارے میں معاملے میں پولیس کا کردار  انتہائی جانبدارانہ رہا ہے اور تفتیشی افسر نے اس کے ساتھ انتہائی تضحیک آمیز رویہ اپنایا اور اسے اکثر چوڑا کہ کر مخاطب کرتا تھا ” میں جب اس کے پاس جاتا تھا اور کرسی پر بیٹھتا تھا تو تفتیشی افسر مصدق حسین کہتا تھا کے  چوڑے تم بھر نکلو، تمہارا کاکام ہے دفتر میں بیھٹنے کا تم لوگوں کو ہم نے گٹر صاف کرنے کے لئے رکھا ہوا، تم ہماری برا بری پر آ کر بیٹھتے ہو. تمہاری بات میں باہر کھڑے ہوکے سنو گا . وہ مجھے دیکھتے ہی کہتا تھا کہ وہ آگے چوڑے نا جائز تنگ کرنے کے لئے.”

اس حوالے سے جب ہم نے متعلقہ پولیس افسر سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس انداز سے گفتگو کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے. تاہم اس سارے میں معاملے میں آصف مسیح کے  ساتھ تھانے کے چکر لگانے والے ان کے مسلم محلےدار  جمال حیدر نے بھی آصف کے ساتھ پولیس کے بد تمیزانہ رویے کی تصدیق کی.

جمال حیدر کے مطابق وہ بھی جب اس کے ساتھ تھانے جاتا تھا تو پولیس والے اس سے بھی پوچھتے تھے کے کیا تمھیں اس بات کی خوشی نہیں ہے کہ ایک غیر مسلم لڑکی مسلمان ہو گی ہے.  جمال حیدر نے ملک میں ہندو اور مسیح لڑکیوں کے ساتھ جبری مذہب تبدیلی کے تیزی سے بڑھتے ہوئے واقعات کو انتہائی قبل تشویش قرار دیا اور انہوں نے تمام پاکستانیوں نے التجا کی کہ وہ ایسے واقعات میں اقلیتوں کے ساتھ کھرے ہو کر احتجاج کیا کریں.

جمال حیدر کا کہنا تھا کہ جب وہ ایک دفعہ لڑکی کے والد کے ساتھ لڑکی کو ملنے حافظ آباد کے قریب ایک گاؤں گئے تو اس کو دیکھ کر انکا دل ہی بیٹھ گیاکہ کیسے مجسٹریٹ نے اتنی چھوٹی سی بچی کی شادی کی اجازت دے دی.

فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے مسیح لیڈر اور سماجی کارکن لالا رابن کہتے ہیں پچھلے چند سالوں میں پاکستان میں ایک ایسا مافیا پیدا ہو گیا ہے جو اپنی جنسی حوس کو پورا کرنے کے لئے مذہب کا استمعال کرتا ہے اور پوری اقلیتی برداری یہ سمجھتی ہے کے عدلیہ کے فیصلوں اور پولیس کے غلط رویوں  کی وجہ سے غیر محفوظ ہو چکی ہیں.

لالا رابن کا مزید کہنا تھا کہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ کی وفات کے بعد سے اس تارہ کے کسیز میں عدلیہ کا کردار کافی حد تک مایوس کن ہو چکا ہے اور  ان کے جانے کے بعد پاکستان کی تمام اقلیتیں خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں- لالا رابن کا کہنا تھا کہ انھیں پاکستان کی ریاست سے انصاف ملنے کی بہت زیادہ  توقع تو نہیں ہے مگر پھر بھی وہ فرح شاہین کی اس کے گھر واپسی کے لئے ہر ممکن قانونی چارہ جوئی ضرور کریں گئے