13 ستمبر 2022
تحریر
احمد سعید
لاہور
اکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق معاون خصوصی شہباز گل کی ضمانت پر فوری رہائی کے بعد سوشل میڈیا پر اٹھایا جا رہا ہے کہ آخر علی وزیر اسی نوعیت کے مقدمات میں ضمانت منظوری کے باوجود جیل میں کیوں ہیں اور وہ کب رہا ہوں گے.
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پندرہ ستمبر کو شہباز گل کی ضمانت بعد از گرفتاری منظور کرتے ہوئے شہباز گل کو رہا کرنے کا حکم دیا. شہباز گل پر غداری کے الزامات کے تحت ایف آئی آر سٹی مجسٹریٹ نے درج کروائی تھی.
شہباز گل کو پندرہ ستمبر کی شام کو ہی اڈیالہ جیل راولپنڈی سے رہا کر دیا گیا.
رواں ہفتے ہی کراچی کی سیشن عدالت نے جنوبی وزیرستان سے منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی بغاوت اور امن عامہ کو نقصان پہنچانے کی دفعات کے تحت درج ایف آئی آر میں ضمانت منظور کر لی. علی وزیر کو اس سے قبل اسی نوعیت کے تین اور مقدموں میں ضمانت مل چکی ہے. رکن قومی اسمبلی کو ایک کیس میں آٹھ ماہ قبل سپریم کورٹ نے بھی ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا تاہم اس کے باوجود علی وزیر تاحال جیل میں ہیں
، واضح رہے کہ علی وزیر کو دسمبر دو ہزار بیس میں گرفتار کیا گیا تھا.
علی وزیر تاحال جیل میں کیوں؟
علی وزیر کے وکیل کے مطابق بغاوت کی دفعات کے تحت ایک مقدمہ بنوں پولیس نے بھی درج کر رکھا ہے اور اس حوالے سے بنوں کی مقا می عدالت نے ملزم کا پروڈکشن آرڈر بھی جاری کر دیا ہے. قادر خان کا کہنا تھا کہ وہ اس مقدمے میں ضمانت کے لئے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کریں گے اور گر انھیں ضمانت مل گئی تو شاید علی وزیر جلد رہا ہو جائیں ورنہ پھر علی وزیر کو کراچی سے بنوں کی جیل میں منتقل کر دیا جائے گا.
‘علی وزیر کے مچلکوں کے لئے چندہ جمع کر رہے ہیں’
اس کے علاوہ علی وزیر کی رہائی میں ایک اور رکاوٹ بھی حائل ہے اور وہ ہے مچلکوں کی رقم کی عدم ادائیگی. جن چار مقدمات میں علی وزیر کو ضمانت ملی ہے، ان کے مچلکوں کی رقم تقریباً انیس لاکھ روپے بنتی ہے. قادر خان کے مطابق علی وزیر کے پاس اتنی رقم موجود نہیں ہے اور وہ ان کے مچلکے جمع کروانے کے لئے چندہ اکھٹا کر رہے ہیں اور امید ہے کہ جلد ہی مطلوبہ رقم جمع ہو جائےگی.
قادر خان کے مطابق علی وزیر کا کاروبار اور جمع پونجی مقدمات کی نظر ہو چکے ہیں.
شہباز گل کے خلاف ایک مقدمہ جبکہ علی وزیر کے خلاف کئی مقدمات
واضح رہے کہ شہباز گل کے خلاف ایک ہی ایف آئی آر درج ہوئی تھی جب کہ علی وزیر کے خلاف ایک ہی تقریر کرنے پر کم از کم پانچ ایف آرز درج کی گئی. قادر خان کے مطابق جب ان کی ایک مقدمے میں ضمات ھو جاتی ہے تو پھر حکومت ان کے خلاف پہلے سے درج ایک اور مقدمہ منظرعام پر لا کر علی وزیر کو گرفتار کر لیتی ہے. ان کا کہنا تھا کہ اگر پولیس پہلے ہی علی وزیر کے خلاف تمام مقدمات سامنے لے آتی تو وہ ایک ساتھ ہی سب میں ضمانت کروا لیتے _
‘علی وزیر نے محاسبے کی بات کی جب کہ شہباز گل نے بغاوت پر اکسایا’
علی وزیر کے وکیل قادر خان کا کہنا ہے کہ اگرچہ علی وزیر اور شہباز گل ایک ہی طرح کے مقدمات میں گرفتار ہوئے تھے تاہم دونوں سے بلکل مختلف قسم کا سلوک روا رکھا گیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں دو پاکستان اور دو قوانین ہیں.
قادر خان کا مزید کہنا تھا کہ شہباز گل اور علی وزیر کے مقدمات میں جو بات مختلف ہے وہ یہ کہ علی وزیر نے ایک جلسے سے خطاب کیا اور وہ کسی مین سٹریم چینل پر نشر بھی نہیں ہوا اور اس جلسے میں علی وزیر نے ان فوجی افسران کے محاسبے کی بات کی تھی جنہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی اور وہ انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث رہے. قادر خان کے مطابق یہ بات بلکل قانونی تھی اور باقی سیاستداں بھی لوگوں کے احتساب کی بات کرتے رہتےہیں.
‘فوج چاہتی ہے کہ علی وزیر معافی مانگے’
سینئر وکیل اور سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن لطیف آفریدی کی رائے تھی کہ اگر چہ علی وزیر نے بھی اپنی تقریر میں کچھ غلط جملے بولے مگر ان کو شہباز گل سے زیادہ کڑی سزا دی گئی. لطیف آفریدی کے مطابق علی وزیر کے خلاف ایک سے زیادہ ایف آئی آرز درج کرنے کی وجہ ان کو لمبے عرصے تک جیل میں رکھنا تھا کیوں کہ فوج چاہتی ہے کہ علی وزیر ان سے معافی مانگیں. لطیف آفریدی کے مطابق سپریم کورٹ نے دو ہزار سولہ میں ایک فیصلے میں یہ واضح ہدایات دی تھی کہ ایک واقعے کی ایک ہی ایف ائر درج ہوگی.
لطیف آفریدی کے مطابق علی وزیر اور شہباز گل کے ساتھ بلکل مختلف سلوک ہوا. شہباز گل کے معاملے میں ان کے قانونی حقوق کا خیال رکھا گیا اور ان کے خلاف مقدمہ بھی مجموعہ ضابطہ فوجداری کے تقاضوں کے مطابق حکومت کے متعین افسر نے درج کروایا جبکہ علی وزیر کے خلاف مقدمات عام شہریوں نے درج کروائے.