تحریر ریحان پراچہ
١٧ مئی ٢٠٢٢
لاہور
پاکستانی جیلوں میں17 غیر ملکی اپنی سزا مکمّل ہونے کے باوجود ایک دہائی سے زائد عرصے سے قید میں سڑ رہے ہیں-ان افراد کا ذہنی توازن درست نہ ہونے کی وجہ سے ان کی کئی سالوں سے قومیت کی شناخت نہیں ہو پا ر ہی تاکے ان کو اپنے ملک بھیجا جاسکے – ان 17 قیدیوں میں سے چار خواتین ہیں۔
وفاقی وزارت داخلہ نے کچھ عرصہ قبل 18 ذہنی طور پر معذور قیدیوں جن میں چار خواتین بھی شامل تھیں کے بارے میں معلومات کے لیے اپنی ویب سائٹ پر ایک عوامی اپیل آویزاں کی تھی- یہ افراد غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے کے جرم میں اپنی قومیتوں کے بارے میں معلومات نہ ہونے کی وجہ سے کئی سالوں سے ملک بدری کے منتظر تھے۔
اسی طرح اسلام آباد میں ہندوستانی ہائی کمیشن نے بھی اپنی ویب سائٹ پر 18 ذہنی طور پر معذور قیدیوں کی تفصیلات ڈالی ہیں، جس میں ہندوستان میں عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اپنی شناخت کے بارے میں کوئی بھی معلومات فراہم کریں۔
صرف ایک قیدی، جسے 2013 میں گرفتار کیا گیا تھا، اپنی سزا پوری کرنے کے بعد واپس بھیجا گیا تھا۔ تاہم باقی جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہیں۔
تاہم بھارتی سرکاری ذرائع نے وائس پی کے کو بتایا کہ ان قیدیوں میں سے ایک پلان شرما ولد پونی شرما ہے، جسے 4 فروری 2013 کو گرفتار کیا گیا تھا اور جو 20 مارچ 2013 سے نظر بند تھا ، کو اس کی سزا پوری ہونے پر واپس بھارت بھیج دیا گیا تھا۔ بھارتی سرکاری ذرائع کے مطابق ان 18 لوگوں میں شرما واحد شخص تھا جس کی تصدیق ہندوستانی شہری کے طور پر ہوئی تھی اور اگست 2021 میں اسے وطن واپس لایا گیا تھا- یہی وجہ ہے کہ بھارتی ہائی کمیشن کی ویب سائٹ پر فہرست میں اب پلان شرما کا نام درج نہیں ہے۔
پاکستانی وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ قیدیوں کو پاکستان میں غیر قانونی داخلے پر غیر ملکیوں کے ایکٹ کے تحت سزا سنائی گئی ہے۔
نوٹیفکیشن میں لکھا ہے کہ یہ ذہنی طور پر معذور ہیں اور اپنے ملک یا شناخت کے بارے میں بتانے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے اپنی سزائیں پوری کر لی ہیں لیکن شناخت نہ ہونے کی وجہ سے انہیں ملک بدر یا رہا نہیں کیا جا سکتا”۔
بھارتی ہائی ہائی کمیشن کی طرف سے پوسٹ کی گئی فہرست میں ان قیدیوں کی عمر، ان کے شناختی نشانات اور وہ کس علاقے سے ہیں کے بارے میں تھوڑی سی مزید تفصیل دی گئی ہے۔
مثال کے طور پر یہ انکشاف ہوا ہے کہ ایک غیر ملکی جو کہ سننے اور گویائی کی صلاحیت سے محروم ہے وہ تقریباً 20 سال سے ’’پاکستانی جیل‘‘ میں قید ہے۔ 26 مارچ 2002 کو گرفتار ہونے والے نامعلوم غیر ملکی نے 27 جون 2002 کو اپنی تین ماہ کی سزا پوری کی لیکن آج تک اس کی رہائی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ اس 50 سالہ شخص کی آنکھ کے بھنویں کے بائیں جانب کالا تل ہے۔
بھارتی ہائی کمیشن کی ویب سائٹ اور وزارت داخلہ کی ویب سائٹ پر قیدیوں کے نام اور جسمانی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں، تاہم سرحد کے دونوں جانب کسی کی طرف سے ابھی تک ان کی قطعی شناخت کے بارے میں دعویٰ نہیں کیا گیا ہے۔
وزارت داخلہ کی ویب سائٹ پر دو الگ الگ نامعلوم نوٹیفکیشنز میں، عوام سے کہا گیا ہے کہ وہ ان غیر ملکیوں کے بارے میں کوئی بھی معلومات وزارت داخلہ کے حکام کو درج کردہ رابطہ نمبر پر فراہم کریں۔ نوٹیفکیشن میں ذہنی طور پر معذور قیدیوں کی تصاویر اور نام ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بھارتی شہری ہیں۔ نوٹیفکیشن میں ان کی گرفتاری کی تاریخ اور ان کی سزا کی تکمیل کی تاریخ کا ذکر ہے۔
ان میں سے دو خواتین پاکستانی جیلوں میں 15 سال سے زیادہ عرصے سے قید ہیں۔ان چار ذہنی طور پر معذورخواتین میں سے نکیا نامی خاتون پاکستان میں سب سے طویل عرصے سے اسیر ہے۔ اس کو 30 اپریل 2007 کو گرفتار کیا گیا اور 10 ستمبر 2007 کو اسنے اپنی سزا پوری کی۔
بھارتی ہائی کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق، نکیا یا نقیا جو ‘نکیا’ اور ‘سیما’ کے القاب سے بھی جانی جاتی ہے کا ممکنہ تعلق ہندوستان کی ریاست بہار سے ہے- اس کی عمر تقریباً 45 سال ہے اور اس کی بائیں آنکھ کے قریب ہلکا نشان ہے جو اسکی شناختی نشان کے طور پر دیا گیا ہے۔
اسما مسکان جسے 10 مئی 2007 کو گرفتار کیا گیا تھا اور 12 ستمبر 2007 کو اپنی سزا مکمل کی تھی، وہ بھیا، دیوی اور لکشمی کے القابات سے پکاری جاتی ہے – اس کی عمر تقریباً 34 سال ہے۔ بھارتی ہائی کمیشن کی ویب سائٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق اس کے ماتھے پر ہلکے زخم کا نشان اور گردن پر تل کا نشان ہے۔
دیگر دو خواتین میں اجیرا ولد اسمولہ ہیں، جنہیں 13 مئی 2009 کو گرفتار کیا گیا تھا اور اس نے 22 مارچ 2009 تک اپنی سزا کاٹی۔ اور گلو جان زوجہ نندراج، جسے 17 اکتوبر 2011 کو گرفتار کیا گیا تھا اور وہ سرحد عبور کرنے کے جرم میں اپنی تین ماہ کی سزا پوری ہونے کے بعد بھی تب سے جیل میں ہے۔ اجیرا کا نام بھارتی فہرست میں ‘اجبیرا’ اور ‘اجیرن’ کے علاوہ ‘اجمیرا’ بھی درج کیا گیا ہے۔ اس کی عمر تقریباً 30 سال ہے اور وہ بھارتی ریاست مغربی بنگال کی رہائشی ہے۔ اس کا شناختی نشان نچلا موٹا ہونٹ درج ہے۔
دریں اثناء مرد قیدی اسمو مسکان کو 23 جنوری 2004 کو اپنی سزا پوری ہونے کے باوجود پاکستان میں 18 سال تک قید رکھا گیا۔ 34 سالہ غیر ملکی کو 24 دسمبر 2003 کو غیر قانونی سرحد عبور کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔
سلورف سلیم کو 23 جولائی 2009 کو گرفتار کیا گیا تھا اور وہ 9 جنوری 2010 کو اپنی سزا کی تکمیل کے بعد سے پاکستان کی جیل میں نظر بند ہے۔ وہ بھرم پور کا رہنے والا بتایا جاتا ہے۔
کشوا بھگوان ولد چننوان عرف چالان وان کو 7 اپریل 2010 کو گرفتار کیا گیا تھا، اس نے 7 جولائی 2010 کو اپنی سزا پوری کرنے کے بعد تقریباً 12 سال قید میں گزارے۔
روپی پال ولد نان چندر پال کو 3 فروری 2010 کو غیر قانونی سرحد عبور کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ ہندوستان میں مغربی بنگال ریاست کے نادیہ ضلع کے گاؤں مدی کلیانی کا رہائشی ہے۔ 31 سالہ شخص کے دائیں کان کے پیچھے ایک تل ہے۔ وہ 7 جولائی 2010 سے اپنی سزا پوری کر چکے ہیں ۔
بپلا ولد ماسٹر کالا ریاست اتر پردیش کا رہنے والا بتایا جاتا ہے۔ 35 سالہ شخص کی بائیں ٹھوڑی پر زخم کا نشان ہے ۔ راجو رائے کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بھارتی ریاست بہار کا رہائشی ہے۔ اسے 19 جولائی 2010 کو گرفتار کیا گیا اور 29 مارچ 2011 سے حراست میں رکھا گیا۔
حامد ولد مرتش کو 13 فروری 2009 کو گرفتار کیا گیا تھا ۔ اس نے 13 فروری 2010 کو غیر قانونی بارڈر کراسنگ کے جرم میں اپنی ایک سال کی قید مکمل کی-سماعت اور گویائی سے معذور ایک اور نامعلوم غیر ملکی کو 13 مارچ 2015 کو غیر قانونی بارڈر کراسنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس نے 4 جنوری 2017 کو اپنی سزا مکمل کی۔ اس شخص کی عمر 30 سے 35 سال کے درمیان ہے۔
شام سندر عرف گونگا بہرا بھی بولنے اور سننے سے معذور ہے۔ اس نے 27 مارچ 2011 کو غیر قانونی بارڈر کراسنگ کے الزام میں گرفتار ہونے کے بعد تقریباً 10 سال قید میں گزارے۔ اس نے 7 اپریل 2012 کو اپنی سزا پوری کی۔وہ بھارت کی ریاست بہار کا رہائشی بتایا جاتا ہے ۔
راجو ولد سمیول مغربی بنگال کے ہگلی ضلع میں بولگھاٹہ ریل اسٹیشن کے نزدیک رائپارہ گاؤں کا رہنے والا بتایا جاتا ہے۔ 25 سالہ شخص کے دائیں گال پر ایک چھوٹا سا تل ہے۔ اسے 24 جنوری 2015 کو گرفتار کیا گیا اور 29 ستمبر 2015 کو اس نے آٹھ ماہ قید پوری کی۔
رمیش ولد سوامی کو 6 دسمبر 2013 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ 30 سالہ شخص کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ہندوستان کی ریاست گجرات کے علاقے پوربندر کا رہائشی ہے۔ اس کی گردن کے دائیں جانب ایک تل ہے۔ رمیش نے 27 مارچ 2014 کو اپنی سزا پوری کی۔
راجو عرف لٹن ولد گوڈا کو 18 اگست 2012 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اس نے 17 نومبر 2012 کو اپنی سزا پوری کی۔ وہ بھارتی ہائی کمیشن کی ویب سائٹ پر ذہنی طور پر معذور افراد میں درج نہیں ہے۔
بھارتی حکام کو پاکستانی جیلوں میں ذہنی طور پر معذور ان غیر ملکی قیدیوں تک قونصلر رسائی دی گئی تھی لیکن وہ اس بات کی تصدیق نہیں کر سکے کہ آیا یہ بھارتی شہری ہیں یا نہیں کیونکہ ان کی جسمانی اور ذہنی صحت کی حالت ٹھیک نہیں تھی ۔
ان قیدیوں کے بارے میں بھارتی میڈیا پر بہت کچھ نہیں مل سکا۔ تاہم جون 2021 میں دی ہندو میں شائع ہونے والی ایک خبر میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے چھ سال قبل 17 (پہلے 18) ذہنی طور پر معذور قیدیوں کی صورتحال سے بھارت کو آگاہ کیا تھا۔
دریں اثنا، بھارتی سرکاری ذرائع کے مطابق، بھارتی ہائی کمیشن حکام کو پاکستانی جیلوں میں ذہنی طور پر معذور ان غیر ملکی قیدیوں تک رسائی دی گئی تھی، لیکن وہ اس بات کی تصدیق نہیں کر سکے کہ آیا یہ بھارتی شہری ہیں یا نہیں، کیونکہ ان کی جسمانی اور ذہنی صحت کی حالت خراب ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ’’بھارتی حکومت نے پاکستان کو ان غیر ملکی قیدیوں کا معائنہ کرنے کے لیے ہندوستانی طبی ماہرین کے دورے کی اجازت دینے کی تجویز دی تھی لیکن ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا‘‘۔
بھارتی سرکاری ذرائع کا کہنا تھا کہ اسی طرح نئی دہلی نے انسانی بنیادوں پر عمر رسیدہ قیدیوں کی رہائی پر غور کرنے کے لیے قیدیوں سے متعلق پاکستان انڈیا جوڈیشل کمیٹی کے احیاء کی تجویز بھی پیش کی۔ یہ کمیٹی 2007 میں شہری اور ماہی گیر قیدیوں کی قانونی اور انسانی مدد کے لیے بنائی گئی تھی لیکن 2013 سے اس کی میٹنگ نہیں ہوئی۔ اس میں دونوں طرف کے ریٹائرڈ جج شامل تھے۔
“مئی 2022 تک، تین ہندوستانی شہری ہیں جنہوں نے اپنی سزا پوری کر لی ہے لیکن ان کی قومیت کی تصدیق کے باوجود انہیں ملک بدر نہیں کیا گیا،” ہندوستانی سرکاری ذرائع نے مزید کہا۔ پاکستان کی جیلوں میں قید 652 بھارتی ماہی گیروں میں سے 335 نے اپنی سزائیں پوری کر لی ہیں لیکن انہیں بھارت ڈی پورٹ نہیں کیا گیا ہے۔
دریں اثنا، جنوری 2022 میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سویلین اور ماہی گیر قیدیوں کے تبادلے کی فہرست کے مطابق، ہندوستان کے پاس اس وقت 282 پاکستانی شہری قیدی اور 73 ماہی گیر اس کی تحویل میں ہیں۔ متعدد بار وائس پی کے نے ترجمان وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ سے رابطہ کیا لیکن ان ذہنی طور پر معذور قیدیوں کے معاملے کے حوالے سے وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
آج سے ساتھ دھایئوں قبل سعادت حسن منٹو نے اس پہ اپنا شہرہ آفاق افسانہ توبہ ٹیک سنگھ لکھا -اس تمام وقت کے گزرنے کے باوجود پاکستان اور بھارت کے حکمران یقین اور پاگل پن کی درمیان اسی سرحد پر پھنسے ہوۓ ہیں –