جنوری ٧ ٢٠٢٢

تحریر شوکت کورائ


کراچی

کراچی میں جمعہ کی الصبح سوا چار بجے پرانی سبزی منڈی کے قریب قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں نے معروف وکیل قادر خان کے گھر پر کارروائی کی اور ان کے گھر کی تلاشی لی گئی ، ان کے بڑے بیٹے اسد خان کو اٹھا کر اپنے ہمراہ لے گئے،قادر خان پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی علی وزیر کے دو مقدمات میں وکیل ہیں،دونوں مقدمات علی وزیر کے خلاف کراچی میں سہراب گوٹھ اور شاہ لطیف ٹائون تھانوں میں دہشت گردی ایکٹ تحت درج ہیں، دونوں مقدمات میں علی وزیر اور پی ٹی ایم کے دیگر کارکنان بھی نامزد ہیں، قادر خان ایڈووکیٹ دونوں مقدمات میں علی وزیر اور ان کے ساتھ شریک ملزمان کے وکیل ہیں.

علی وزیر کے خلاف تھانہ سہراب گوٹھ میں قائم ایک مقدمے میں سپریم کورٹ نے ضمانت منظور کررکھی ہے جبکہ دوسرے مقدمے میں ضمانت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ ہے اور کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے ضمانت کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سنانے کے لیے 15جنوری کی تاریخ مقرر کردی ہے۔ علی وزیر کی تھانہ سہراب گوٹھ میں درج مقدمے میں کراچی کی انسداد دہشت گردی اور سندھ ہائی کورٹ نے ضمانت کی درخواستیں مسترد کردی ہیں جس کے بعد سپریم کورٹ نے علی وزیر کی ضإانت منظور کی اور ساتھ عدالت عظمی نے ضمانت کی درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دئیے کہ وفاقی حکومت تحریک طالبان سمیت کالعدم تنظیموں سے بات کرسکتی ہے تو پھر پارلمینٹ کے رکن اور عوامی نمائندے کو ضمانت ملنی چائیے۔علی وزیر کے خلاف کراچی میں جلسے کے خطاب کے دوران 2مقدمات درج کیے گئے تھے جبکہ تیسرا مقدمہ کوہاٹ میں درج ہے اسے کراچی سے کوہاٹ منتقل کرنے کے لیے کے پی کے پولیس نے کراچی کی 2انسداد دہشت گردی کی عدالتوں سے رجع کیا تھا اور علی وزیر کی منتقلی کے لیے احکامات جاری کردئیے ہیں۔

قادر خان نے بتایا کہ ان کی غیر موجودگی میں سوا چار بجے رینجرز کی چار گاڑیاں گھر کے باہر پہنچی جس کے بعد رینجرز اور سول کپڑوں میں ملبوس افراد نے گھر کا دروزاہ کھٹکھٹایا اور فیملی سے پوچھا کہ یہ گھر قادر خان کا ہے جس کے بعد وہ گھر میں گھس گئے اور پھر پورے گھر کی تلاشی لی الماریوں سے کپڑے نکال کر باہر پھینک دئیے اور بچوں کو ڈرایا دھمکایا اور ان کے متعلق معلومات حاصل کرتے رہے ، جس کے بعد وہ میرے بیٹے اسد خان کو اپنے ہمراہ لے گئے اور نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔.

قادر خان کے چھوٹے بیٹے ایف ایس سی کے طالب علم حماد خان کا کہنا ہے وہ رات کو اپنے گھر کے باہر بیٹھے تھے اس دوران رینجرز کی چار گاڑیاں پہنچی سب سے پہلے تو انھوں گلی کو سیل کردیا وہ اپنے گھر جانے لگے تو انھیں اجازت نہیں دی گئی، پھر رینجرز اہلکار اور سادہ لباس کپڑوں میں کچھ افراد اپارٹمنٹ کی سیڑھیوں سے اندر چلے گئے ، جب رینجرز چلی گئی تو وہ اپنے گھر گئے اور گھر میں سارے کپڑے اور سامان بکھرا ہوا تھا میرے بہن ایک کونے میں بیٹھی ہوئی رو رہی تھی وہ خوف زدہ تھی انھوں نے بتایا کہ رینجرز والے تھے اور اپنے بھائی اسد خان کو اپنے ہمراہ لے گئے ہیں، حماد نے بتایا کہ اس کے بعد انھوں نے ون فائیو (15) پر کال کی، کچھ دیر بعد دو پولیس اہلکار ہمارے گھر پہنچے انھوں نے پولیس کو ساری صورتحال بتائی، پھر وہ نیو ٹائون تھانے چلے گئے تھانے پر موجود ڈیوٹی افسر کو درخواست دی حماد نے ڈیوٹی افسر صورتحال بتائی تو ڈیوٹی افسر نے جواب دیا کہ وہ رینجرز کے معاملے میں کچھ نہیں کر سکتے ، حماد کان نے تھانے پر موجود ڈیوٹی افسر کو تحریری درخواست بھی دی، حماد خان نے نیو ٹائون تھانے کے ایس ایچ او کو لکھی گئی درخواست میں کہا ہے کہ قانون نافذ رنے والے اداروں کے اہلکاروں نے گھر میں داخل ہوکر گھر کی تلاشی لی اور میرے بڑے بھائی اسد خان کو تشدد کا نشانہ بنایا اور بہنوں کو ہراساں کیا حتیٰ کہ ہمارے کتابوں کو بھی چیک کرنے کے بعد گرادیا۔ انھوں نے تاحال ہمارے بھائی کے متعلق کچھ پتا نہیں ہے،،،.

کراچی پریس کلب کے باہر وکلا، پختون تحفظ موومنٹ سمیت پختون اسٹوڈنٹ فیڈریشن کی جانب سے قادر خان کے گھر پر کارروائی احتجاجی مظاہر کیا گیا، احتجاج میں شرکاء کا کہنا تھا اگر قادر کان کوئی جرم ہے تو سامنے لائو، لیکن ایک پروفیشنل وکلا کو کام کرنے سے روکنا آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے، انا کا کہنا تھا قادر خان قصور یہ ہے کہ انھوں نے علی وزیر کا کیس لڑا ہے

ایس ایس پی شرقی قمر رضا جسکانی کے مطابق تاحال پولیس کے پاس کوئی اطلاع نہیں ہے لیکن اسد خان منشیات کی فروخت میں ملوث رہا ہے، اسد خان کو اس سے قبل بھی 2018 میں گرفتار کیا گیا تھا،ممکنہ طور پر اسدخان کو رینجرز نے حراست میں لیا ہوگا، رینجرز کے پاس پولیس کے اختیارات ہیں تفتیش کے بعد رینجرز ممکنہ طور پر پولیس کے حوالے کردیگی، ایسا ہوتا ہے ریُجرز تفتیش کے بعد ملزمان کو پولیس حوالے کر دیتی ہے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here