جنوری ٨ ٢٠٢٢

تحریر: ریحان پراچہ


لاہور

پاکستان میں آئے دن سیاسی رہنماؤں ، ججوں اور دیگر افراد کی آڈیوکالز اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر لیک ہوتی ہیں لیکن نہ کوئی سیاسی جماعت ، عدالت اور صحافی تنظیمیں یہ مطالبہ کرتی نظرآتی ہیں کہ یہ ریکارڈنگ کس نے کی _

پاکستان الیکٹرانک کرائم ایکٹ  کے تحت کسی کی اجازت کے بغیر  آڈیوکالز اور ویڈیوز ریکارڈ کرنا جرم ہے اورایسا کرنے والے کو  تین سال  قید کی سزا  ہو سکتی ہے _

ماضی میں بھی کئی  سیاسی رہنماؤں، صحافیوںاور ججز کی خفیہ آڈیو اور ویڈیوز  منظر عام پر آ چکی ہیں اور اس حوالے زیادہ تر انگلیاں انٹیلیجنس اور تفتیشی اداروں کی جانب اٹھائی جاتی رہی ہیں مگر کبھی بھی اس حوالے سے  متاثرہ فریق کی جانب سے کوئی ٹھوس  قانونی چارہ جوئی نہیں کی گئی اور  نہ ہی کبھی  کسی حکومت نے اس طرح کے معاملات کی انکوائری کا حکم دیا.
 اس حوالے سے بات کرتے ہوئے سینئر سیاسی تجزیہ نگار حامد میر کا کہنا تھا کہ انٹیلیجنس  اداروں  نے کبھی بھی کوئی آڈیوکالز اور ویڈیوز  کی ریکارڈنگ قبول نہیں کی لیکن جن کی  آڈیوکالز اور ویڈیوز لیک ہوتی ہیں  جانتے ہیں کہ  ریکارڈنگ کس نے کی .
‘مسلم لیگ  نواز  نے معاملہ پارلیمنٹ میں کیوں نہیں اٹھایا’
حامد میر نے سوال اٹھایا کہ]”مسلم لیگ نواز کے کئی رہنماؤں کی آڈیوکالز اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر لیک ہوئیں لیکن انہوں نے یہ معاملہ پارلیمان میں نہیں اٹھایا کہ کس نے ریکارڈنگ کی اور کیوں لیک کی “
ان کے بقول صحافی تنظیموں کو بھی سوال اٹھانا چاہیئے کہ یہ ریکارڈنگ کون کرتا ہے. ان کا کہنا تھا اس طرح کی  لیکڈ ویڈیوز اور آڈیوز کی  کوئی قانونی حثیت نہیں ہوتی اور ان پر قانونی کاروائی صرف تب ہی ہو  سکتی ہے جب یہ پتا ہو کہ ان کو کس شخض نے کب اور کیوں ریکارڈ کیا تھا.
انہوں نے مزید  کہا کہ وہ کافی عرصے سے  آڈیومیسج نہیں بھیجتے کیونکہ  ان پر  ایک جعلی آڈیو کی بنیاد پر کیس بنایا گیا تھا جسے وہ کئی سال تک  عدالتوں میں بھگتتے رہے _
‘کسی کی ذاتی زندگی محفوظ نہیں’
سیاسی تجزیہ نگار منیزے جہانگیر کے مطابق  سیاسی رہنماؤں ، ججوں اور دیگر افراد کی آڈیوکالز اور ویڈیوز کی بے دریغ ریکارڈنگ کا سلسلہ  کافی عرصے سے جاری اور اگر اس حوالے سے کوئی کارر وائی نہ کی گئی تو  عام لوگ بھی اس سے متاثر ہو سکتے ہیں_ اسکا مطلب یہ ہوگا کہ کسی کی ذاتی زندگی محفوظ نہیں.

ان کے بقول  جس وقت اور جس طرح یہ  آڈیوکالز اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر لیک ہوتی ہیں لگتا ہے کہ یہ ایک سیاسی بساط کا شاخسانہ ہیں_

“کبھی حکومت  آڈیوکالز کو اپوزیشن کے خلاف استمعال کرتی ہے اور پھر اپوزیشن آڈیوکالز کی بنیاد پر حکومت پر شدید تنقید کرتی نظر آتی ہے “
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس پر کوئی سوال نہیں کر رہا کہ کون یہ ریکارڈنگ  کر رہے ہیں اور کس قانون کے تحت یہ سب کچھ ہورہا ہے _
کسی شخض کی جاسوسی کے لئے عدالتی اجازت ضروری ہوتی ہے
ڈیجیٹل رائٹس کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم بولو بھی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اسامہ خلجی نے  سوشل میڈیا پر بڑھتی ہوئی تعداد میں سیاسی رہنماؤںکی آڈیوکالز اور ویڈیوز لیک ہونے پر تشویش کا اظھار کیا -ان کے بقول تفتیش اس بات پر ہونی چاہیے کہ یہ ریکارڈنگ کر کون رہا ہے ناکہ ان آڈیوکالز میں کون کیا کہہ رہا ہے _
“یہ بہت اہم سوال ہے کہ کون سیاسی رہنماؤں کے فون ٹیپ کر رہا اور انکی جاسوسی کر رہا ہے _کیا یہ سب کسی قانون کے تحت ہورہا ہے اور اسکی اجازت کون دے رہا ہے،”
ان کا مزید کہنا تھا کہ آئین ہر شہری کو اپنی ذاتی زندگی کو مخفی رکھنے کا حق دیتا ہے _  انکے مطابق ملکی قوانین کے تحت کسی بھی ادارے کو کسی بھی شخص کی جاسوسی کرنے کے لیے عدالت سے اجازت لینا
لازمی ہے _
“ملکی تاریخ کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ کافی سیاست دانوں ،  ججوں اور صحافیوں کے فون ٹیپ کیے گیے اور ان کالز کے مواد کو ایک خاص وقت پراستعمال کرکے لوگوں کو بلیک میل کیا گیا”
اسامہ خلجی نےکہا کہ  شہریوں کے فون پر کیے گیے ذاتی مکالموں کو  قانونی تحففظ ملنا چاہیئے جس کے لیے ضروری ہے ڈیٹا پروٹیکشن بل کو فوری طور پر پارلیمان میں لایا  جائ

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here