دسمبر ٢١ ٢٠٢١
تحریر: احمد سعید
لاہور
اہور ہائی کورٹ نے وفاقی اور پنجاب کی صوبائی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ نکاح نامے کی شق تیرہ میں ترمیم کریں تاکہ دلہن کو ملنے والی حق مہر کی تمام تفصیلات درج ہو سکیں اور اس حوالے سے پیدا ہونے والے ابہام کو دور کیا جا سکے.
.
عدالت کی جانب سے یہ کہا گیا کہ ترمیم کے ذریعے حکومت نکاح نامے کی شق تیرہ کے تین ذیلی خانے بناے جن میں یہ لکھا جا سکے کہ (١)کتنا حق مہر رقم کی صورت میں دیا جاے گا، (٢) حق مہر کی صورت میں کوئی منقولہ جائیداد یا چیز دی گی ہے (٣) حق مہر کی صورت میں کوئی غیر منقولہ جائیداد یا چیز دی گی ہے.
.
ہائی کورٹ نے حکومت کو یہ بھی ہدایت دی ہے کہ نکاح رجسٹرار کو لائسنس دینے کے لئے کم از کم تعلیمی قابلیت کا معیار مقرر کرے اور ان کی مناسب تربیت کا بندوبست بھی کرے.
.
لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے یہ فیصلہ حق مہر کے تنازعات کے دو مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے جاری کیا. عدالت نے اپنے حکمنامے میں کہا کہ اس بات میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ شادی ایک سول معاہدہ ہوتا ہے اور مہر، وہ رقم یا پراپرٹی ہوتی ہے جو شادی کرنے کے لئے شوہر کی جانب سے بیوی کا حق ہوتا ہے.
.
مہر کی رقم ادا ہونے کی صورت میں لکھوائی گئی جائیداد پر دعوی دائر نہیں کیا جا سکتا
.
موجودہ نکاح نامے کے کی شق تیرہ سے سولہ تک حق مہر کے معاملات سے متعلق ہے. شق تیرہ میں حق مہر کی طے شدہ رقم لکھی جاتی ہے جب کہ شق چودہ اور پندرہ میں یہ تحریر کیا جاتا ہے کہ آیا رقم فوری ادا کر دی گی ہے یا پھر ادائیگی کو موخر کر دیا گیا ہے. شق سولہ میں اس بات کا اندراج کیا جاتا ہے کہ آیا پورے مہر یا اس کے کسی حصے کے عوض کوئی جائیداد دی گی ہے اور اگر دی گی ہے تو اس جائیداد کی صراحت اور اس کی قیمت جو فریقین کے مابین طے پائی ہے.
.
عدالت نے قرار دیا کہ اگر شق تیرہ میں طے شدہ حق مہر ادا کر دیا گیا ہو تو پھر شق سولہ میں لکھوائی گی جائیداد سے متعلق عورت کوئی دعوی دائر کرنے کا حق نہیں رکھتی ہے.
.
عدالت نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ اگر مہر میں کوئی جائیداد لکھوائی جاے، اور جس شخص کے نام پر وہ جائیداد ہو، اس کے نکاح نامے پر دستخط نہ ہوں تو ایسی صورت میں بیوی اس جائیداد سے حس لینے کی حقدار نہ ہوگی. لیکن اگر جائیداد کے ملک شخض کے دستخط ے نکاح نامے پر موجود ہوں تو ایسی صورت میں عورت کو اس لکھی گی جائیداد میں سے طے شدہ حق مہر کے مطابق رقم کی ادائیگی کی جا سکتی ہے.
.
عاصمہ جہانگیر لیگل ایڈ سیل سے تعلق رکھنے والی سینئر وکیل اور فیملی لاء کی ماہر عالیہ ملک ایڈووکیٹ نے اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ حق مہر کے حوالے سے کافی متضاد فیصلے موجود تھے جس سے ہمیشہ ابہام رہتا تھا. ان کا مزید کہنا تھا کہ نکاح نامہ کے فارم بھرتے وقت احتیاط سے کام لینا چاہئے اور جس خاتون کی شادی ہو رہی ہو اس کو اس کے حقوق کے حوالے سے مکمل آگاہی دینی چاہئے ہے اور یہ آگاہی دینے کی ذمے داری نکاح رجسٹرار کی ہونی چاہئے.
.
عالیہ ملک کا کہنا تھا کہ عاصمہ جہانگیر لیگل ایڈ سیل کافی عرصے سے اس بات کا مطالبہ کر رہا ہے کہ حکومت نکاح رجسٹرار کی تربیت اور ٹریننگ کا بندوبست کرے تاکہ وہ بہتر انداز میں نہ صرف نکاح نامے کو پر کر سکیں بلکہ شادی کرنے والے جوڑے کو ان کے حقوق کے متعلق مناسب معلومات فراہم کر سکیں.