دسمبر ١٠ ٢٠٢١
تحریر: شوکت کورائی
کراچی
آج پھر رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی درخواست ضمانت پر دلائل نہیں ہو سکے، اور معاملہ 15 دسمبر تک چلا گیا، کراچی سینٹرل جیل میں قائم انسداد دہشتگردی عدالت میں جب علی وزیر کے کیس کی فائل فاضل جج کے سامنے رکھی گئی تو اسی کیس میں نامزد دو ملزمان کی ضمانت کے لئے درخواستیں بھی دائر تھیں جس پر وکلا نے دلائل دینے تھے، وہ دونوں ملزمان امان خٹک اور عمیر خٹک پیش نھیں ہوئے، جس کے باعث سماعت ملتوی کردی گئی امان خٹک اور عمیر خٹک دونوں باپ و بیٹا اسی کیس میں نامزد ہیں ان پر الزام ہے کہ ان کے گھر پر جلسے کی تیاری کے سلسلے میں کارنر میٹنگ کا انعقاد کیا گیا تھا، علی وزیر کے وکیل قادر خان کا کہنا ہے کہ دونوں باپ و بیٹا عبوری ضمانت پر ہیں اور عدالت نے تینوں درخواستیں یکجا کردی ہیں لہٰذا ان تینوں درخواستوں کو ایک ساتھ سنا جائے گا، اس کے لئے ملزمان کا عدالت میں موجود ہونا ضروری ہے، ان کا کہنا ہے کہ عدالت نے ضمانتوں کی درخواستوں پر دلائل کے لئے دس دسمبر کی تاریخ مقرر کی جبکہ کیس کی سماعت 15 دسمبر کو رکھی گئی تھی اس غلط فہمی کے باعث دونوں باپ و بیٹا پیش نہیں ہوئے اب 15 دسمبر کو درخواستوں پر دلائل ہونگے۔
یہ تو معاملہ غلط فہمی کا تھا لیکن سہراب گوٹھ تھانے کے کیس میں علی وزیر کی درخواست ضمانت کو سپریم کورٹ پہنچتے ہوئے ایک برس لگ گیا، علی وزیر کے وکلاء کو اب بھی کو خدشہ ہے کہ کہیں اس کیس میں بھی ضمانت کی درخواست پر مزید ایک برس نہ لگ جائے، کراچی میں پختون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کی جانب سے سیاسی جلسہ کیا گیا تھا جس میں پی ٹی ایم سربراہ منظور پشتین، محسن داوڑ ، علی وزیر دیگر رہنمائوں نے خطاب کیا تھا، جلسے کے بعد ریاست کی مدعیت میں منظور پشتین، علی وزیر اور دیگر رہنمائوں کے خلاف ملکی سالمیت سمیت اشتعال دلانے کی تقاریر کے الزامات کے تحت سہراب گوٹھ اور شاہ لطیف تھانوں میں دہشتگردی ایکٹ کے تحت دو مقدمات درج کئے گئے تھے، جس کے بعد پشاور پولیس نے علی وزیر کو شہداء آرمی پبلک اسکول کی چھٹی برسی کی تقریب میں شرکت کے بعد گرفتار کیا تھا، کراچی کی انسداد دہشتگردی عدالت میں علی وزیر نے ضمانت کی درخواست دائر کی جو عدالت نے تین فروری 2021 کو مسترد کردی ،
حسب معمول اس فیصلے کے خلاف 17 فروری کو سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کیا گیا، سندھ ہائیکورٹ میں علی وزیر کی درخواست کو تین ماہ سے زائد کا وقت گزرا ، ہائیکورٹ میں درخواست ضمانت پر کارروائی 18 روز میں مکمل کر لی گئی اور 5 مارچ کو فیصلہ محفوظ کیا گیا، لیکن فیصلہ سنانے میں 2 ماہ 25 روز لگے، ہائیکورٹ نے درخواست ضمانت پر اس وقت فیصلہ سنایا جب لطیف آفریدی اس وقت کے سپریم کورٹ بار کے صدر نے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ احمد علی ایم شیخ کو خط لکھ کر یاد دلایا کہ علی وزیر کی درخواست ضمانت پر فیصلہ کئی ماہ سے محفوظ ہے اس کا فیصلہ آپ کی عدالت نے سنانا ہے لہٰذا اسے سنایا جائے جو بھی فیصلہ دینا ہے وہ قبول ہوگا لیکن درخواست پر فیصلہ میرا حق ہے اسے سنایا جائے ، یہ رویہ بنیادی انسانی حقوق کے برعکس ہے، جس کے بعد یکم جون 2021 کو سندھ ہائیکورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئےعلی وزیر کی درخواست ضمانت مسترد کردی، عدالت نے اس فیصلے میں انسداد دہشتگردی عدالت کو بھی ہدایت کی کہ کیس کا فیصلہ چھ ماہ میں مکمل کیا جائے اب وہ چھ ماہ بھی گزر چکے ہیں تاحال فیصلہ نھیں ہوا،
اسی طرح علی وزیر کو سپریم کورٹ سے ضمانت حاصل کرنے میں بھی ساڑھے 5 ماہ تک انتظار کرنا پڑا، علی وزیر کے وکیل نے ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں 15 جون کو اپیل دائر کی جس پر 30 نومبر کو فیصلہ سنایا گیا، سپریم کورٹ بار کے سابق صدر لطیف آفریدی اور سابق نائب صدر صلاح الدین گںڈاپور نے درخواست ضمانت کی پیروی کی، صلاح الدین گنڈا پور کا کہنا ہے کہ عدالتوں میں فیصلے تو تاخیر سے ہونا ایک تاریخ ہے لیکن خاص طور پر علی وزیر کے کیس میں محکمہ پراسیکیوشن سندھ کا رویہ قابل مذمت ہے زیادہ تاخیر بھی محکمہ پراسیکیوشن کے باعث ہوئی، سپریم کورٹ میں بھی درخواست ضمانت مختلف بینچز کے روبرو گھومتی رہی، فیصلے سے ایک روز قبل بھی ایک بینچ سے درخواست ہٹا دی گئی پھر دوسری بینچ کے روبرو اس وقت کیس کولگایا گیا جب ہم وکلاء کورٹ سے واپس جا چکے تھے، اس ساری کارروائی میں
حکومت سندھ کا رویہ بھی قابل مذمت رہا ہے پیپلز پارٹی ایک طرف پی ٹی ایم سے ہمدردی کا اظہار کرتی ہے دوسری طرف علی وزیر کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لئے سندھ کابینہ سے منظوری لی جاتی ہے، اور حکومت سندھ کا تعینات کردہ پبلک اسیکیوٹر جنرل تاخیری حربے استعمال کرتا ہے، ان کا کہنا ہے بغیر جرم ثابت کئے علی وزیر کو ایک سال جیل میں گزر چکا ہے، وہ بیمار بھی ہیں اس کا بہتر علاج بھی نہیں ہو رہا ، ہم مانتے ہیں موجودہ کریمنل جسٹس سسٹم کے باعث عدالتوں میں مقدمات کا ڈھیر لگ گیا ہے، لیکن علی وزیر اور اس جیسے دیگر مقدمات میں تاخیری حربے استعمال کئے جاتے ہیں، اور یہی اسی کیس میں کیا گیا ہے، اب علی وزیر کے دوسرے کیس میں ضمانت ہونی ہے خدشہ ہے کہ اسی کیس میں بھی ایسا ہی ہوگا لیکن سپریم کورٹ نے جو ضمانت دی ہے اس میں جو ججز کے ریمارکس تھے دوسری کیس میں علی وزیر کو ضمانت ملنی چایئے، کیس میں ایسی کوئی ٹھوس وجوہات نہیں ہیں کہ درخواست ضمانت مسترد کی جائے،،،،