اگست ٩ ٢٠٢١

اسٹاف رپورٹ


لاہور

معروف صحافی اور اینکر پرسن حامد میر نے بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پاکستان میں سنسر شپ کی زندہ مثال ہیں.  ان کا کہنا تھا کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی ان پر ٹی وی پروگرام کرنے پر پابندی لگی تھی مگر وزیر اعظم عمران خان کے دور میں تو ان پر اخبار پر لکھنے پر بھی پابندی عائد ہو چکی ہے.

 

حامد میر کو جیو ٹی وی نے مئی  کے آخر میں ان کے لمبے عرصے سے چلنے والے پروگرام کیپٹل ٹاک کی میزبانی سے روک دیا تھا. یہ پابندی حامد میر کی جانب سے نیشنل پریس کلب کے باہر صحافی اسد طور پر ہونے والے  حملے کے خلاف منعقد ہونے والے احتجاجی مظاہرے کے دوران کی گی سخت  تقریر کی وجہ سے عائد کی گی تھی.
حامد میر نے پابندی لگنے کے بعد اپنے پہلے انٹرویو میں وائس پی کے کو بتایا تھا کہ جیوٹی وی کی انتظامیہ نے انھیں بغیر کسی شو کاز نوٹس کے ہی آف ایئر کر دیا تھا. جب کہ جیو ٹی وی نے ایک بیان میں یہ کہا تھا کہ ان کی ادارتی کمیٹی حامد میر کی جانب سے کی گی تقریر کا جائزہ لے گی.
حامد میر نے بعد ازاں صحافتی تنظیموں پر مشتمل ایک کمیٹی کو وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی تقریر کا مقصد افواج پاکستان کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہیں تھا اور وہ اپنے الفاظ پر معذرت کرتے ہیں.
جب انٹرویو میں ان کی وضاحت کے حوالے سے سوال کیا گیا تو حامد میر کا کہنا تھا کہایسا  نہیں ہے کہ وہ اپنے بیانات سے پیچھے ہٹے ہیں بلکہ ان کے وضاحتی بیان کا مقصد قانونی پیچیدگیوں سے نمٹنا تھا “کچھ افراد  یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے تھے کہ میں نے  پورے ادارے پر الزام لگا یا تو میں نے یہ  وضاحت کی تھی میں پورے ادارے کو الزام نہیں دے رہا بلکہ میں صرف چند افراد کے بارے میں بات کر رہا ہوں جو میڈیا کی آواز کو بند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔”
“میرے مالکان کے سر پر بندوق تنی تھی”
 بی بی سی کے میزبان سٹیفن سیکر کی جانب سے پوچھے گئے اس سوال کے جواب میں کہ کیا آپ اپنے ادارے سے مایوس ہیں کا جواب دیتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کہ اگر چہ وہ یقینی طور جیو سے مایوس ہیں مگر وہ اس کی انتظامیہ کے حالات سے بھی بخوبی واقف ہیں. ” میرے مالکان کے سر پر پہلے ہی بندوق تانی ہوئی تھی ۔ چنانچہ جب ان سے حامد میر پر پابندی کا کہا گیا تو انہوں نے مجھ پر پابندی لگا دی۔ تو میں ان کا مسئلہ سمجھ سکتا ہوں۔”
“عمر قید کی سزا کے لئے تیار ہوں”
جب حامد میر سے پوچھا گیا ان پر بغاوت کے الزام میں جو مقدمات درج ہو رہے ان کے تحت انھیں عمر قید کی سزا بھی سنائی جا سکتی ہے تو سینئر صحافی کا کہنا تھا کہ وہ  عمر قید کی سزا کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہیں.
اگر وہ مجھے مجرم قرار دے پائیں گے تو کم از کم پوری دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے۔ پوری دنیا پہلے ہی جان چکی ہے کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے کیونکہ میں پاکستان میں سنسر شپ کی زندہ مثال ہوں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ حامد میر کے ساتھ کیا ہوا اور اس پر پابندی کیوں لگائی گئی اور ہر کوئی ان لوگوں کے نام جانتا ہے جن کا میں نے ذکر نہیں کیا ، ہر کوئی جانتا ہے کہ مجھ پر پابندی لگانے کے ذمہ دار کون تھے۔ عام پاکستانی بہت سمجھدار ہیں ، وہ بہت چالاک ہیں۔ وہ ہر چیز کو جانتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے”
عمران خان طاقتور وزیر اعظم نہیں ہیں
ایک سوال کے جواب پر حامد میر کا کہنا تھا کہ جب عمران خان اپوزیشن میں تھے تو وہ ان کو کافی ایئر ٹائم دیا کرتے تھے اور ان کے ساتھ دوستانہ رویہ اختیار کرتے تھے مگر جب وہ وزیر اعظم بن گے تو میں نے ان کی حکومت پر تنقید کرنا اور سوال کرنا شروع کر دے. حامد میر کے مطابق عمران خان کو ان کا حکومت پر تنقید کرنا اچھا نہیں لگا.
حامد میر کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں وزیر اعظم عمران خان ان پر لگنے والی پابندی کے ذمے دار نہیں ہیں اور نہ ہی وہ ان کو آف ایئر کرنا چاہتے ہیں مگر عمران خان ماضی کے وزراے اعظم کی طرح طاقتور نہیں ہیں اور وہ ان کی مدد بھی نہیں کر سکتے.
حامد میر کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک سیکورٹی اسٹیٹ ہے اور عمران خان اپنی کتاب میں بھی ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور آئی ایس آئی کے کردار کے بارے میں بڑے واضح انداز میں بات کی ہے اور انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی سیاستدان ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو شکست نہیں دے سکا.
جب حامد میر سے سوال کیا گیا کہ کیا پاکستان میں صحافت اور صحافیوں کے لئے خوف کا ماحول ہے تو ان کا کہنا تھا بلکل ایسے ہی ہے. بہت سارے نوجوان  پاکستان میں میڈیا کی آزادی کو لے کر صحافی مایوس ہیں ۔ جب 2018 میں عمران خان اقتدار میں آئے تو پاکستان ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں 139 ویں نمبر پر تھا۔ آج ، 2021 میں ، یہ 145 ہے۔ چنانچہ پاکستان نے پچھلے تین سالوں میں چھ پوائنٹس کھوئے اور یہ پاکستان کی عالمی ساکھ کے لئے اچھا نہیں ہے.
صحافیوں کے قسمت کے فیصلے  فواد چوہدری کریں گے تو  پھر  تنقید ہو گی
حامد میر نے میزبان کو بتایا کہ انہوں نے صحافیوں کے تحفظ کا قانون لانے کے لئے انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری کے ساتھ مل کر بہت کام کیا تھا. ان کا کہنا تھا جہاں پر عمران خان صحافیوں کے تحفظ کا بل لا کر اچھا کام کر رہے ہیں وہاں دوسری طرف ہی وہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی  کا بل بھی  لانے کی کوشش کر رہے ہیں جو صحافیوں کے تحفظ بل کی مکمل نفی ہے۔
“وہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرنے جا رہا ہیں  ، ہم اس کی حمایت کر رہے ہیں لیکن اگر وہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی بل کے ذریعے ہم پر سنسر شپ نافذکریں  گا اور تمام اختیارات وزارت اطلاعات کو سونپ دے جائیں گے ، اور  اگر صحافیوں کے قسمت کے فیصلے  فواد چوہدری کریں گے تو  پھر ہم ان پر تنقید کریں گے۔ “
جان کو خطرہ ہے مگر پاکستان نہیں چھوڑوں گا  
جب حامد میر سے سوال کیا گیا کہ کیا ان کی جان کو خطرہ ہے تو ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک طویل عرصے سے اپنی ذاتی حفاظت کے بارے میں بہت فکر مند ہیں.  “میں نے اپنے خاندان کو پاکستان چھوڑنے کو کہا اور وہ پاکستان سے جا چکے ہیں  ، میری بیٹی اور بیوی پہلے ہی چلے گئے ہیں۔ مجھ سے کچھ لوگوں نے رابطہ کیا جنہوں نے مشورہ دیا کہ میں پاکستان چھوڑ دوں۔ لیکن میں نے  پاکستان نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here