٤ جولائی ٢٠٢١

تحریر: احمد سعید


لاہور

لاہور ہائی کورٹ بار کے سیکرٹری خواجہ محسن عبّاس کا کہنا ہے وفاقی حکومت نے بار کو جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف قرارداد لانے کے لئے بلیک میل کیا تھا. ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ بات حلفیہ کہہ سکتے ہیں وزارت قانون نے ان سے رابطہ کر کے  جسٹس عیسی کے خلاف ” احتساب سب کے لئے”  کے عنوان سے قرارداد پیش کرنے کو کہا تھا.
.
تاہم وفاقی وزیر قانون نے ان اطلاعات کی تردید کی ہے اور کہا کہ حکومت نے کسی بھی بار کونسل کو کسی کے خلاف قرارداد لانے کے لئے دباؤ نہیں ڈالا.
.
  خواجہ محسن عبّاس کے مطابق حکومت کو معلوم تھا کہ ہائی کورٹ بار کو اپنے اخراجات چلانے کے لئے حکومتی گرانٹ کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے حکومت نے بار کو دی جانے والی سالانہ فنڈز کو قاضی فائز عیسی کے خلاف کے قرارداد سے نتھی کر دیا تھا.
.
 سیکرٹری لاہور ہائی کورٹ بار نے یہ واضح کیا کہ حکومتی گرانٹ کا ملنا بار کا حق ہوتا ہے اور ان کی بار بھی اپنا یہ حق لے گی مگر اس کے لئے کسی صورت بھی جسٹس قاضی فائز عیسی کے کیس سے متعلق اپنے اصولی فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹے گی اور نہ ہی حکومتی ایما پر کوئی قرارداد پاس کی جاے.
.
لاہور ہائی کورٹ بار کو من پسند قرداد لانے کا نہیں کہا جا سکتا: صدر
.
اس حوالے سے لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر مقصود بٹر کا کہنا ہے کہ یہ بار کا فیصلہ ہے کہ وہ ہر مشکل میں جسٹس قاضی فائز عیسی کے ساتھ ہی کھڑے ہوں گئے. جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا ان پر کوئی قرداد لانےکے لئے کوئی دباؤ ہے تو مقصود بٹر کا موقف تھا کہ بار نے ہمیشہ مثبت اپوزیشن کا کردار ادا کیا ہے اور  لاہور ہائی کورٹ بار  کو  کوئی  بھی  من پسند قرداد لانے کا نہیں کہ سکتا.
.
جسٹس قاضی فائز عیسی کے کیس کے حوالے سے مقصود بٹر کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ اب ختم ہو چکا اور اب تمام ججز کو چاہئے کہ وہ مل کر کام کریں تاکہ سائلین کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے.
.
اس حوالے سے سینئر قانون دان اور سپریم کورٹ بار کی صدارت کے امیدوار احسن بھون کا کہنا ہے کہ پاکستان بھر کے وکلاء پاکستان بار کونسل کی قیادت میں متحد ہو کر جسٹس قاضی فائز عیسی کے ساتھ کھڑے  ہیں. ان کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ بار کے فنڈز کے اجرا کو  جسٹس عیسی کے خلاف قرارداد سے جوڑنا قابل مذمت  اور پریشان کن بات ہے.
.
لاہور بار کا قرارداد کے بعد  جسٹس عیسی سے اظہار یکجہتی
.
اس سے قبل پنجاب کی کچھ ضلعی اور تحصیل ایسوسی ایشنز بشمول لاہور بار  نے قاضی فائز عیسی کے خلاف قرارداد پاس کی تھی. لاہور بار کی قرارداد میں کہا گیا تھا پاکستان میں کوئی بھی احتساب سے بالا تر نہیں ہے اور اگر ملک کے تین دفعہ کے وزیر اعظم  کا احتساب ہو سکتا ہے تو پھر ججز اور جرنیل بھی احتساب کے عمل سے بالاتر نہیں ہیں. قرارداد میں یہ بھی کہا گیا تھا کے آنے والے دنوں میں لاہور بار ایسوسی ایشن جسٹس قاضی فائز عیسی کے کیس میں بطور فریق شامل ہو سکتی ہے.
.
اس قرارداد کی منظوری کے بعد  قاضی فائز عیسی کی اہلیہ سرینا عیسی نے خط لکھ کر اس حوالے سے بار کو  اپنے تحفظات سے آگاہ کیا تھا  . اس خط کا جواب دیتے ہوئے لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر ملک سرود احمد نے سرینا عیسی کو یہ یقین دلایا  کہ وکلاء کو جسٹس عیسی اور ان کی فیملی کو پہنچنے والی تکلیف کا احساس ہے. ان کا مزید کہنا تھا کہ  ان کی بار نے ہمیشہ ججز اور ان کے اہلخانہ کے خلاف چلنے والی مذموم مہم کی مذمت کی ہے
.
خط میں مزید کہا گیا کہ یکساں احتساب کے مطالبے کا ہرگز مقصد یہ نہیں ہے کہ وکلاء جسٹس عیسی کے خلاف بد نیتی سے  دائر کے گئے حکومتی ریفرنس کو درست سمجھتے ہیں. ان کا کہنا تھا احتساب کی آڑ میں کسی بھی ریاستی ادارے کو یہ اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ ججوں کو بدنام کرنے کے لئے بدنیتی  سے ثبوت اکٹھا کرنا شروع کریں۔
.
آخر حکومت بار ایسوسی ایشنز کو فنڈز کیوں دیتی ہے:
.
اگر چہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشنز کو فنڈز جاری کرنے کی قانونی طور پر پابند تو نہیں ہے لیکن تقریباً ہر وفاقی اور صوبائی حکومت پاکستان بار کونسل سمیت ہائی کورٹ بار اور ضلعی بار ایسوسی ایشنز کو ان کی تعداد کے حوالے سے فنڈز دیتی رہی ہیں.
.
اس حوالے سے لیگل پریکٹشنر بار کونسل ایکٹ 1973  کی سیکشن 57 وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بار کونسلز اور ایسوسی ایشنز کو فنڈز مہیا کرنے کا صوابدیدی اختیار دیتا ہے.  تاہم وکلاء تنظیموں کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ قانون میں تبدیلی لا  کر حکومت کو بار کونسلز کو فنڈز جاری کرنے  کا پابند کیا جاے تاکہ حکومتیں وکلاء کو اپنے حق میں قراردادیں   لانے کے لئے مجبور نہ کر سکیں.
.
اس حوالے سے بار کونسلز کا موقف ہے کیونکہ بارز کو وکلاء کی فلاح و بہبود کے لئے بھی کام کرنے ہوتے ہیں اس لئے ان کے لئے سالانہ فیسوں کی مد میں اکھٹی کی گی رقم نا کافی ہوتی ہے اور ان کو اپنے خرچے پورے کرنے کے لئے حکومتی امداد کی ضرورت ہوتی ہے.
.
بار ایسوسی ایشنز کو خودمختار ہونے کی ضرورت ہے
.
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے فنانس سیکرٹری فیصل توقیر سیال کا کہنا ہے کہ ان کی بار ایسوسی ایشن  کے ماہانہ اخراجات تقریباً پچاس لاکھ سے زیادہ ہیں. ان کا کہنا ہے کہ ہر حکومت لاہور ہائی کورٹ بار کو سالانہ فنڈز فراہم کرتی ہے مگر ایسا پہلی دفعہ ہوا ہے کہ کسی حکومت نے فنڈنگ کے معاملے میں بلیک میلنگ سے کام لیا ہو.
.
 فیصل توقیر کا موقف تھا کہ مستقبل میں اس طرح کی صورتحال سے بچنے کے لئے بار ایسوسی ایشنز کو خودمختار ہونے کی ضرورت ہے اور وہ اس حوالے سے قابل عمل حکمت عملی بنا رہے ہیں. ان کے مطابق  وہ کوشش کر رہے ہیں کہ  بار کے اخراجات کے لئے مستقل بنیادوں پر متبادل ذرائع آمدن کا  بندوبست کر سکیں

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here