جولائی ١٦ ٢٠٢١
تحریر: فرزانہ علی
پشاور
ضلع بنوں کے علاقے جانی خیل میں قبائلی رہنما ملک نصیب خان وزیر کے قتل کے خلاف دھوپ اور گرمی میں دھرنا دئیے مظاہرین کو 17 روز ہوگئے لیکن حکام اس بار بھی گذشتہ دھرنے کی طرح بےجا طوالت سے معاملات کوبگاڑنے کے درپے ہیں۔
شدید گرمی کے باعث ملک نصیب خان کی لاش کے ساتھ صبح سویرے سات بجے سے گیارہ بجے اور 4 بجے سے رات دس بجے تک احتجاجی دھرنا دیا جاتا ہے لیکن عینی شاہدین کے مطابق اس دوران بھی دھرنے میں بیٹھے افراد کے گرمی کے باعث بے ہوش ہونے کے واقعات عام ہیں ۔ احتجاجی دھرنے میں ہر روز جانی خیل، بکا خیل، شمالی وزیرستان اور بنوں سے تعلق رکھنے والے افراد کثیر تعداد میں شرکت کرتے ہیں ۔
جرگے آرہے ہیں لیکن انتظامیہ اس میں سنجیدہ نہیں ہے”
قبائل سربراہ ڈاکٹر گل عالم وزیر کا کہنا ہے کہ “ہمارا ریاست کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا جس پر ریاست کو عمل درآمد کرنا تھا لیکن اس پر مکمل عمل درآمد نہیں ہوا ۔ اب یہ دھرنا یہی کہہ رہا ہے کہ جو معاہدہ کیا گیا تھا اس پر عمل درآمد کریں ۔ جرگے آرہے ہیں لیکن انتظامیہ اس میں سنجیدہ نہیں ہے اس لئے ہمارا اگلا پڑاو اسلام آباد ہو گا اور اگر وہاں بھی ہمارے مطالبات پورے نہیں ہوئے تو ہم یو این میں جائیں گے”.
30 مئی اتوار کی شام کو نامعلوم حملہ آوروں کے ہاتھوں فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے جانی خیل قومی جرگہ کے اہم رکن 60 سالہ ملک نصیب رواں سال مارچ میں علاقے میں بگڑتی ہوئی امن وامان کی صورتِ حال پر حکومت کے خلاف ہونے والے دھرنے کے سرکردہ رہنما تھے اور 28 مارچ کو قبائلی قومی جرگہ اور حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے پر انہوں نے بھی دستخط کئے تھے .
اس معاہدے میں حکومت نے علاقے سے دہشت گردوں کو نکالنے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کا وعدہ کیا تھا جو قبائلی عوام کے مطابق ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں میں ملوث ہی
’تصفیہ جانی خیل امن و امان‘ کے نام سے کئے جانے جانے والے اُس معاہدے پر کمشنر اور ڈپٹی کمشنر بنوں اور جانی خیل قبیلے کے 13 رہنماؤں اور مصالحتی جرگہ میں شامل چھ اراکین نے دستخط کئے تھے ۔ جس کے تحت خیبر پختونخوا کی حکومت نے معاہدے میں یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ جانی خیل میں امن وامان یقینی بنائے گی اور علاقے سے ہر قسم کے مسلح گروہوں کا صفایا کیا جائے گا لیکن معاہدے کے کچھ ہی عرصے بعد خود معاہدے پر دستخط کرنے والا قبائلی رہنما نامعلوم افراد کے ہاتھوں فائرنگ کا نشانہ بن گیا اور اب اہل علاقہ انصاف کی فراہمی اور گذشتہ معاہدے پر عملدرآمد کے لئے ایک بار پھر سے سراپا احتجاج ہیں ۔
بدھ بروز 15 مئی کو جرگے سے ہونے والے مذکرات کی ناکامی کے بعد دھرنا عمائدین کہ طرف سے اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کیا گیا ۔ دھرنے کے سٹیج سے یہ بھی واضح کیا گیا کہ اگر انھیں اسلام آباد جانے سے روکا گیا تو وہ ہر اُس طرف جائیں گے جہاں پر اُنکی بات سنی جائے گی ۔ دھرنا مظاہرین کے مطابق اب کی بار نہ صرف ملک نصیب خان کی بلکہ مارچ کے اوائل میں قتل کئے جانے والے چار کمسن لڑکوں کی لاشیں بھی دوبارہ نکال کر ساتھ لے جائیں گے جنھیں امانتا دفن کیا گیا تھا ۔
ریاست کی نظر میں گڈ اور بیڈ طالبان کی تفریق نہیں: ڈ ی سی بنوں
دھرنے کے اسلام آباد مارچ میں بدلنے کے خدشے سے متعلق جب وائس پی کے ڈاٹ نیٹ نے ڈی سی بنوں محمد زبیر نیازی سے بات کی تو انھوں نے بتایا کہ ڈیڈ لائن کو ری وزٹ کرنے پر بات چیت ہو رہی ہے اور کوشش کی جا رہی ہے کہ مسئلے کا پر امن حل نکالا جائے کیونکہ مسئلہ ایسا ہے جسکے مکمل حل کے لئے نہ صرف وقت درکار ہے بلکہ اسے کئی طریقوں سے ڈیل کرنے کی بھی ضرورت ہے جیسا کہ جانی خیل جیسے پسماندہ علاقے میں ترقیاتی کاموں کا کیا جانا۔عوام کو تعلیم کی سہولت دینا سمیت کئی اہم کام ہیں جو کرنے کے ہیں۔
محمد زبیر نیازی نے بتایا کہ گذشتہ دھرنے کے بعد ہونے والے معاہدے میں تین ماہ کا وقت مانگا گیا تھا لیکن کچھ شقوں پر عمل درآمد کے لئے زیادہ وقت درکار ہے جس پر کام ہو رہا تھا کہ بدقسمتی سے ایک اور واقعہ ہو گیا ۔ انھوں نے بتایا کہ کل بھی انتظامیہ کے افراد اور وزیر قوم کے جرگے نے دھرنا متاثرین سے بات کی اور انھیں بتایا گیا کہ ریاست اپنے معاہدے پر قائم ہے اور طے شدہ نقاط پر عمل درآمد ہو رہا ہے اور اگر ان کے کچھ اور معاملات ہیں تو وہ اپنی ایک خصوصی کمیٹی بنا لیں جو جانی خیل قبیلے کی ہو یا دوسری شاخوں کے ممبر بھی اُس کمیٹی میں شامل کر لیں جسکی متعلقہ اعلی حکام سے ملاقات بھی کروائی جا سکتی ہے تاکہ وہ اپنے شکوے شکایات یا مسائل براہ راست بھی حکام کے سامنے رکھ سکیں۔
تاہم ڈپٹی کمشنر بنوں نے گڈ اور بیڈ طالبان کی اصطلاح کے بار بار استعمال پر جواب دیا کہ ریاست کے سامنے شدت پسندوں کا ایک ہی درجہ ہے اور ریاست اُسی تناظر میں اُن کے خلاف کاراوئی کرتی ہے ۔ ڈی سی بنوں محمد زبیر نیازی نے یہ بھی واضح کیا کہ پڑوس میں ہونے والی ڈیویلپمنٹ اور دنیا کے بدلتے حالات میں علاقے کی صورتحال ایک بار پھر کشیدہ ہوئی ہے ور اس نئی لہر میں خیبر پختونخوا کے کئی علاقوں میں دہشگردی کے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں اور پھرجانی خیل کی اپنی بھی پرانی تاریخ ہے تو یہ علاقہ بھی متاثر ہو رہا ہے۔
ایک حکومتی عہدیدار کی طرف سے ملک نصیب خان وزیر کے قتل کو ذاتی دشمنی قرار دینے کے سوال پر انکا کہنا تھا کہ قتل کے وقت انکے خاندان کے افراد انکے ساتھ تھے اورانھوں نے قاتلوں کو جانتے ہوئے بھی نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کروایا ۔ اگر وہ پولیس کی مدد کر دیں تو جلد قاتلوں تک پہنچا جا سکتا ہے ۔