جون ٢ ٢٠٢١

تحریر: احمد سعید


لاہور

حامد میر کی 28 مئی کو نیشنل پریس کلب کے باہر صحافیوں پر تشدد کے خلاف کی جانے والی تقریر کا معاملہ تاحال تھم نہیں سکا. جیو نیوز نے حامد میر کو پروگرام کیپٹل ٹاک کی میزبانی سے روک دیا تھا اور کہا تھا کہ ان کی تقریر کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی قائم کر دی گئی ہے.
.
لیکن اب حامد میر کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کروانے کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ہے. اس حوالے سے گوجرانوالہ کے ایک مقامی وکیل منظور قادر بھنڈر نے ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں حامد میر اور عاصمہ شیرازی کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کی درخواست دائر کر دی ہے.
.
اس حوالے سے جب وائس پی کے نے ان سے پوچھا کہ انھیں حامد میر کی تقریر کے کس حصے پر اعتراض ہے تو منظور قادر بھنڈر کا کہنا تھا کہ ‘جہاں پر انھوں نے جنرل باجوہ کا نام لیا ہے. جب ہم نے انھیں بتایا کہ اس تقریر میں تو جنرل باجوہ کا نام لیا ہی نہیں گیا تو درخواست گزار کا مؤقف تھا کہ پھر ان سے درخواست لکھتے ہوئے ‘انیس بیس’ ہو گئی ہو گی.’
.
اس سے قبل  منظور قادر بھنڈر نے نیشنل پارٹی کے مرحوم رہنما حاصل بزنجو کے خلاف بھی ڈی جی آئی ایس آئی کا نام لینے کے ‘جرم’ میں درخواست داخل کروا چکے ہیں. جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ صرف فوجی افسران کے حوالے سے ہی  اتنے حساس کیوں ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ یہ ‘مقدمات تو  میرے دل کی آواز ہوتے ہیں’
.
خیال رہے کہ اس سے قبل بھی مختلف عام شہریوں نے صحافیوں اور سیاست دانوں کے خلاف بغاوت سمیت نفرت انگیز تقاریر کرنے کی دفعات کے تحت مقدمات درج کروانے کے لیے درخواست داخل کروا چکے ہیں جبکہ اس حوالے سے  قانون واضح ہے کہ بغاوت سمیت ریاست مخالف دیگر جرائم کا مقدمہ صرف وفاقی یا صوبائی حکومتیں ہی درج کروا سکتی ہیں۔
.
ان درخواست گزاروں کے متعلق ہماری جمع کی گئی معلومات درج ذیل ہے
.
عصمت الله راجپوت: عصمت الله نے حامد میر کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کرنے کی درخواست دی ہے جس میں انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ حامد میر کی 28 مئی کو کی گئی تقریر سے ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے. وائس پی کے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک  مقامی اخبار میں سب ایڈیٹر ہیں اور بعض اوقات کالم بھی لکھتے ہیں. ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ قانون کے مطابق وہ ایسا مقدمہ درج کرانے کے مجاز نہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ‘وہ قانون کی باریکیوں کو زیادہ نہیں سمجھتے اور فون بند کر دیا.’
.
بدر رشید: بدر رشید نے پچھلے سال ستمبر میں نواز شریف سمیت مسلم لیگ نون کی اعلیٰ قیادت کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کروایا تھا۔ انھوں نے اپنی درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ نواز شریف کی تقریر سے ملکی مفاد کو نقصان پہنچتا ہے. بدر رشید نے وائس پی کے سے بات کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ تحریک انصاف کے ممبر ہیں مگر جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ اب کیس کس مرحلے میں ہے تو ان کا کہنا تھا کہ مقدمہ کورٹ میں زیر سماعت ہے جب کہ در حقیقت لاہور پولیس نے نواز شریف کے علاوہ مقدمے میں نامزد تمام افراد کے نام ایف آئی آر سے خارج کر دیے تھے. واضح رہے کہ  مدعی بدر رشید خود مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہیں اور لاہور پولیس کو اقدام قتل سمیت کئی مقدمات میں ملوث رہے ہیں.
.
جمیل سلیم: انہوں نے اس سال ن لیگ کے رہنما جاوید لطیف کے خلاف عوام کو اداروں کے خلاف اکسانے کے الزام میں مقدمہ درج کروایا تھا۔ جمیل سلیم کے مطابق وہ لاہور کے علاقے ٹاؤن شپ سے تحریک انصاف کے کونسلر منتخب ہوئے تھے اور آج بھی ان کی وابستگی تحریک انصاف سے ہی ہے. ان سے جب جاوید لطیف کے خلاف مقدمے کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ان کو زیادہ معلومات نہیں بس یہ پتا ہے کہ جاوید لطیف اب جیل چلا گیا ہے۔
.
چودھری نوید: انہوں نے پچھلے سال سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم کے خلاف بغاوت اور اداروں کے خلاف الزام تراشی کے الزام میں تعزیرات پاکستان اور پیکا کے تحت مقدمہ درج کروایا تھا. چودھری نوید کے مطابق وہ تحریک انصاف لائرز ونگ جہلم کے صدر ہیں اور قانون کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ جب ان سے سوال ہوا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ ان کا مقدمہ اس وقت کس سٹیج پر ہے تو انہوں نے کہا کہ شاید ابھی ایف آی اے تفتیش ہی کر رہی ہے. ان سے پوچھا گیا کہ بطور وکیل ان کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ وہ بغاوت کا مقدمہ خود درج نہیں کروا سکتے تو چودھری نوید کا کہنا تھا کہ پہلے معلوم نہیں تھا مگر اب پتا چل گیا ہے اس لیے وہ کیس کو پیکا کے تحت ایف آئی اے میں لے گئے ہیں۔
.
حافظ احتشام:  حافظ احتشام نے ستمبر 2020 میں صحافی اسد طور  پر ملکی اداروں کو بدنام کرنے کے الزام میں پیکا اور تعزیرات پاکستان کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کروایا۔ تاہم بعد میں لاہور  میں مقدمے کو ‘بے فائدہ’ قرار دے کر خارج کر دیا تھا. حافظ احتشام ایک عادی درخواست گزار ہیں جنھوں نے وزیر اعظم  عمران خان کی  جانب سے سیتا وائٹ کو اپنی بیٹی ظاہر نہ کرنے کے خلاف نااہلی کی درخواست بھی دائر کی تھی. وائس پی کے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایسی درخواستیں وہ قومی مفاد میں دائر کرتے ہیں. حافظ احتشام کا تعلق ایک تنظیم شہدا فاؤنڈیشن سے بھی ہے جو کہ لال مسجد کے ‘شہدا’ کو انصاف دینے کے لیے قائم کی گئی تھی مگر تنظیم کے سربراہ طارق اسد نے  حافظ احتشام کو ایک دفعہ  ‘بچگانہ’ حرکات کرنے کے الزامات عائد کر کے تنظیم سے نکال بھی دیا تھا۔
.
جاوید خان: جاوید خان کراچی میں ایک فیکٹری ملازم ہیں جنہوں نے ستمبر 2020 میں صحافی بلال فاروقی کے خلاف “اداروں کو بدنام” کرنے کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کروایا تھا. جاوید خان کے مطابق وہ لانڈھی کے علاقے سے تعلق رکھتا ہے اور ایک دن جب کام کے لیے کلفٹن کے علاقے میں پہنچا تو اس نے اپنی فیس بک چلائی جہاں پر اس کو بلال فاروقی کی جانب سے کی گئی پوسٹ ملی جسے دیکھ کر اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچی. اس ایف آئی آر کے بعد پولیس نے بلال فاروقی کو گرفتار کر لیا مگر اگلے ہی دن ایک مجسٹریٹ نے پولیس کو بلال فاروقی کو رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے پولیس کو کیس ایف آئی اے کے حوالے کرنے کا حکم دیا تھا. کیس کی موجودہ صورتحال جاننے کے لئے جب وائس پی کے نے جاوید خان سے رابطہ کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا کہ انھیں کیس کے بارے میں اب کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔