مئی ٣ ٢٠٢١

تحریر: ریحان پراچہ


لاہور

جنوری 2020 سے اپریل 2021 کے عرصہ میں پاکستان میں دس صحافیوں کا قتل ہوا لیکن اب تک ان کے مبینہ قاتلوں کو کسی ایک کیس میں عدالت سے سزا نہیں مل پائی

فریڈم نیٹ ورک پاکستان  کی  رپورٹ کے مطابق  مئی 2020سے اپریل 2021تک پاکستان میں صحافیوں پر 148حملے ہوئے جو پچھلے سال کی نسبت 40فیصد زیادہ ہیں۔ صحافیوں پر سب سے زیادہ حملے اسلام آباد، اس کے بعد صوبہ سندھ اور پھر صوبہ پنجاب میں ہوئے۔ رپورٹ میں اسلام آباد کو صحافیوں کیلئے خطرناک ترین شہر قرار دیا گیا ہے.

گزشتہ سال انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلٹس کے  وائٹ پیپر کے مطابق  1990سے 2020کے دوران پاکستان میں 138صحافیوں کو اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران قتل ہوۓ ۔ پاکستان میں صحافیوں کے خلاف جرائم میں اضافہ گیارہ ستمبر 2001کے بعد ہوا۔  جب جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے امریکی دبائو پر اپنی پالیسی تبدیل کی تو پاکستان میں ریاست کے خلاف عسکریت پسندی کے واقعات بڑھ گئے۔

2006میں شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی حیات ﷲ خان کو اغوا کے بعد قتل کر دیا گیا.انھوں نے میر علی میں ڈرون حملے کی خبر دی تھی لیکن حکومت نے اس ڈرون حملے کو بم دھماکہ قرار دیا تھا.. حیات ﷲ خان سے کہا گیاتھا  کہ وہ حکومت سے تعاون کریں یا پھر صحافت چھوڑ دیں۔مظلوم کو انصاف نہیں دیا گیا البتہ قتل کے 15سال بعد صدر مملکت کی طرف سے 23مارچ 2021کو حیات ﷲ خان کو تمغۂ شجاعت دینے کا اعلان کیا گیا جو ان کے برخوردار کامران حیات نے وصول کیا…

صحافی ذولفقار مندرانی  جو سندھی اخبار کوشش سے منسلک تھے کوپچھلے سال  چھبیس مئی کو دو حملہ آوروں نے جیکب  آباد میں قتل کر دیا تھا. ان کے بھائی صالح مندرانی کا کہنا ہے کہ انہیں کیس کی کارروائی میں پولیس کی   طرف سے عدم تعاون  کا سامنا رہا .ان کا کہنا ہے ان کے بھائی کو منشیات فروشوں نے نشانہ بنایا جن کے خلاف انہوں نے خبر دی تھی ..ملزم گرفتار ہیں اور عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے ..

اسی طرح اس سال سترہ مارچ کو سکھر میں صحافی اجے لالوانی جو ایک سندھی  اخبار سے منسلک تھے گولی مار کر قتل کر دیا تھا ..ان کے چچا ایڈووکیٹ ہرا نند کے مطابق قتل میں ملوث تین افراد جن میں  مقامی یونین کونسل  کے چیئرمین اور ایک پولیس افسر شامل ہیں اب تک گرفتار نہیں ہوۓ …

 مقامی صحافی انور جان کھیتران جن کو پچھلے سال تعیس جولائی کو بارکھان میں فائرنگ سے قتل کیا تھا ان کا مقدمہ بھی عدم کارروائی کا شکار ہے .عدالت کے حکم کے باوجود کیس میں نامزد وزیر کو گرفتار نہیں کیا گیا .

 اس دوران دیگر قتل ہونے والے صحافیوں میں عبدل واحد رئیسانی ، وسیم عالم ، عزیز میمن ، جاوید اللہ ،ملک نظام تانی ،قیس جاوید ،اور  شاہینہ شاہین  کے نام شامل ہیں .ان سب کے ملزموں کو اب تک عدالت سے سزا نہیں ہو پائی .

پاکستان پریس فاؤنڈیشن کی طرف سے جاری کردہ پاکستان پریس فریڈم رپورٹ 2020-2021 کے مطابق، قتل، جسمانی حملوں،ماورائے قانون اغوا کے ساتھ ساتھ میڈیا کے اہلکاروں کو دھمکیوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ بدستور جاری رہا …

 پاکستان پریس فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ  صحافیوں کے خلاف جسمانی حملے کئی دہائیوں سے جاری ہیں، لیکن پاکستان میں اب تک میڈیا کے تحفظ کے لئے کوئی حفاظتی بل موجود نہیں ہے…

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر شہزادہ ذولفقار کا کہنا ہے کہ صحافیوں کے قا تل اکثر  پکڑے نہیں جاتے یا مفرور رہتے ہیں .ان کے مطابق پولیس تفتیش میں سقم رہ جاتے ہیں …جس سے کیس کمزور ہوتا ہے اور ملزم عدالت سے بری ہو جاتے ہیں ..جتنے بھی صحافی قتل ہوے ہیں ان کو اب تک انصاف نہیں ملا ..

 صحافتی آزادی کے دن کی مناسبت سے صحافی تنظیموں نے  مطالبہ کیا  ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس بات کو یقینی بنا ئیں کہ صحافیوں اور میڈیا پریکٹیشنرز کی یک طرفہ نظربندی اور تشدد، جبری گمشدگی، اغوا، اور قتل سے متعلق تمام معاملات میں قابل اعتماد تفتیش اور بھرپور فوجداری قانونی کارروائی کی جا ئے۔