مئی ٦ ٢٠٢١
اسٹاف رپورٹ
لاہور
پاکستان کا جی-ایس-پی پلس سٹیٹس ختم کرنے سے متعلق یورپی یونین کی اسمبلی سے منظور ہونے والی قرارداد نے پاکستان میں ایک طوفان کو جنم دے دیا ہے اور ماہرین یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اس سٹیٹس کے باعث پاکستان کو حاصل تجارتی مراعات کا خاتمہ ملکی معیشت کے لئے سنگین دھچکہ ثابت ہو سکتا ہے-
5 مئی کو صحافی منیزے جہانگیر نے پاکستان میں یورپی یونین کی سفیر اینڈرولا کامینارا سے خصوصی انٹرویو کیا جس میں اس قراداد اور اس کے اثرات سے متعلق تفصیلی گفتگو کی گئی- اس موقع پر کامینارا کا کہنا تھا کہ پاکستان کا جی-ایس-پی پلس سٹیٹس ختم کرنے کے حوالے سے اب تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں لیا گیا-
جی-ایس-پی پلس نظام متعارف کروانے کا مقصد یہ تھا کہ ترقی پذیر ممالک میں جمہوریت اور جدیدیت کے عمل کو موثر بنانے کے لئے بروقت اصلاحات کو یقینی بنایا جا سکے- یورپی کمیشن اس سکیم سے مستفید ہونے والے ممالک میں اصلاحات کا جائزہ لے کر یورپی پارلیمنٹ اور یورپی کونسل کو رپورٹس جمع کرواتی ہے تاکہ اس نظام کو زیادہ بہتر بنایا جا سکے-
اینڈرولا کامینارا کے مطابق یورپی پارلیمنٹ کے ہر ممبر کا استحقاق ہے کہ وہ اسمبلی میں اپنی فہم کے مطابق کوئی بھی قراداد جمع کروا سکتا ہے- 683 ممبران نے پاکستان سے متعلق اس قراردادکی حمایت کی ہے جو پاکستان کے لئے تشویشناک بات تو ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان کا جی-ایس-پی پلس سٹیٹس ختم کر دیا گیا ہے-
اینڈرولا کامینارا نے تنبیہ کی کہ “اس قرارداد کی منظوری سے پاکستان کو مضبوط اشارہ ملا ہے کہ اصلاحات کی رفتار کو تیز کرنے کی ضرورت ہے- اور یہ ثابت ہوتا ہے کہ یورپ میں کچھ حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے کہ پاکستان اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہا”- یورپی یونین کی جانب سے سال 2021 میں شائع کی گئی رپورٹ میں زیادہ تر انہی باتوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کی نشاندہی وہ اپنی پچھلی سالانہ رپورٹ میں بھی کر چکے ہیں-
سزائے موت سے متعلق ایک سوال کے جواب میں اینڈرولا کامینارا کا کہنا تھا کہ پاکستان کی آبادی عالمی آبادی کا 3-4 فیصد بنتی ہے- جبکہ دنیا بھر میں سزا موت پانے والے 25 فیصد افراد کا تعلق پاکستان سے ہے- ان کے مطابق “پاکستان میں 33 جرائم ایسے ہیں جن کے نتیجے میں پھانسی کی سزا دی جا سکتی ہے- یورپ نے پاکستان سے درخواست کی ہے کہ ان جرائم کی تعداد میں کمی کی جائے- کیونکہ یورپی یونین کے ممالک سزائے موت کے سخت خلاف ہیں- دیکھئے پاکستان میں اس وقت قریباً ساڑھے چار ہزار افراد سزائے موت پانے کے بعد جیلوں میں قید ہیں ہم بس یہ درخواست کر رہے ہیں کہ اس تعداد میں کمی کی جائے”-
ان کا مزید کہنا تھا کہ عورتوں کے حقوق کے حوالے سے بھی یورپی یونین مستقل پاکستانی حکومت سے رابطے میں ہے کیونکہ یہ معاملہ بھی یورپ کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے- انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوۓ کہا کہ “ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ تمام تبدیلیاں رات و رات نہیں کی جا سکتیں- لیکن کئی مسائل ایسے ہیں جو ایک طویل عرصے سے حل نہیں ہو پا رہے اور کئی مسائل کے حوالے سے تو باقاعدہ تنزلی ہو رہی ہے”-
اینڈرولا کامینارا کا یہ بھی کہنا تھا کہ یورپی یونین کی جانب سے گزشتہ سال شائع کی گئی رپورٹ میں اس چیز کی نشاندہی کی گئی تھی کہ سال 2019 سے پاکستان کا قومی کمیشن برائے انسانی حقوق غیر فعال ہے کیونکہ اس کا کوئی چیئرمین ہی منتخب نہیں کیا جا سکا اور یہ معاملہ بھی ابھی تک حل نہیں کیا جا سکا- ان کے مطابق “ریاست پاکستان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ان اصلاحات کو کیسے آگے بڑھانا ہے اور ہم نے گزشتہ سال کی رپورٹ میں بھی ان مسائل کی نشاندہی کر دی تھی”-
یورپی یونین کی سفیر کے مطابق “جی-ایس-پی پلس سٹیٹس کا مقصد کسی ایک حکومت کو فائدہ پہنچانا نہیں بلکہ تمام عوام کو فائدہ پہنچانا ہے- ہم دوسرے ممالک کی حکومتوں کی کارکردگی پر فیصلہ نہیں سنا سکتے- ہمیں تو بس اصلاحات سے غرض ہے کہ کیا ان میں پیشرفت ہو رہی ہے یا نہیں”-
انہوں نے تسلیم کیا کہ کئی معاملات میں بہتری آئی ہے جن میں بچوں سے مشقت لینے کا معاملہ سر فہرست ہے- وفاقی حکومت نے اس سلسلے میں بہت کام کیا ہے جبکہ صوبائی حکومتوں کو ابھی بھی اس پر کافی کام کرنے کی ضرورت ہے- اس موقع پر صحافی منیزے جہانگیر نے سوال کیا کہ چونکہ پاکستانی ریاست کو انسانی حقوق میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے اس لئے یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کا جی-ایس-پی پلس سٹیٹس ختم ہو جائے گا اور بلاخر نقصان عوام کو ہی اٹھانا پڑے گا- جس کے جواب میں سفیر نے بتایا کہ پاکستان کو جی-ایس-پی پلس سے نکالنے کا کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا-
انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوۓ بتایا کہ یہ معاملہ صرف پاکستان کی حکومت کا نہیں ہے عوام کے کئی طبقات بھی اس عمل میں اہم شراکت دار ہیں “میں کچھ عرصہ پہلے فیصل آباد گئی تھی اور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ فیصل آباد پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور یہ صنعت جی- ایس-پی پلس سٹیٹس سے بہت فائدہ اٹھاتی ہے- اس لئے میں نے اس حوالے سے وہاں کے لوگوں سے بھی گفتگو کی- اس گفتگو کا ایک اہم موضوع کم عمر بچوں سے مشقت تھا- یہاں کے کاروباری طبقے نے مجھے بتایا کہ چونکہ فکٹوریوں کی جانچ کے لئے انسپکٹرز کی کمی ہے اس لئے یہ کام آن لائن کیا جانا چاہیے- میں سمجھتی ہوں کہ اگر ایسا ہوا تو یہ پیچھے کی طرف قدم لینے کے مترادف ہو گا- اور اس کی ذمہ داری کاروباری طبقے پر براہ راست عائد ہوتی ہے”
کورونا وبا کے متعلق اینڈرولا کامینارا نے پاکستانیوں کو خوش خبری دیتے ہوۓ کہا کہ لاکھوں ویکسینز کی شپمنٹ اسی ہفتے پاکستان پہنچ جائے گی-