اپریل ٦ ٢٠٢١
تحریر: احمد سعید
لاہور
عورت مارچ سے منسلک خواتین کے بارے میں نازیبا الفاظ استمعال کرنے پر دائیں بازو کے اخبار روزنامہ امت کو صحافتی اور سماجی حلقوں کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے.
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے اپنے بیان میں شائع خبر کو صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی اخبارات میں ایسی زبان استمعال نہیں ہوئی. بیان میں مزید کہا گیا کہ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ روزنامہ امت ان شدت پسندانہ عناصر کا ایجنڈا پورا کر رہا ہے جو خواتین کو ملکی ترقی میں کردار ادا کرتا نہیں دیکھنا چاہتے.
اس کے علاوہ کراچی یونین آف جرنلسٹس اور کمیشن براۓ انسانی حقوق نے بھی مذکورہ خبر کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے صحافتی اقدار کی سنگین پامالی قرار دیا.
اخبار کے مالک غائب
اس حوالے سے جب ہم نے روزنامہ امت سے موقف جاننے کے لئے اخبار کے مالک رفیق افغان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر متعدد کوششوں کے باوجود انہوں نے ہمارے بھیجے گے سوالات کا کوئی جواب نہ دیا.
روزنامہ امت نے یہ خبر پانچ اپریل کو شائع کی تھی جب کہ چار اپریل کو وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے عوام کے سوالات کے براہ راست جوابات دیتے ہوئے ملک میں بڑھتے ہوئے ریپ کیسز کو خواتین کے لباس اور معاشرے میں مغربی اقدار کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے جوڑا تھا.
خبر کی اشاعت مالک کی ذہنی اختراع
ایک سینئر صحافی، جو کچھ عرصہ قبل تک روزنامہ امت میں سینئر ادارتی پوزیشن پر فائز تھے، نے شنا خت ظاہر نہ کرنے کی شرط بتایا کہ ایسی خبر کا اخبار کےمالک کے علم میں ؛لاے بغیر چھپنا ممکن نظر نہیں آتا، انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس معاملے کی مکمل انکوائری ہونی چاہئے اور اس کے بعد اخبار کے مالک سمیت جو شخض بھی ذمے دار قرار پاے اس کا احتساب ہونا چاہئے.
ان کے مطابق مذکورہ خبر میں جس طرح سے غلط الفاظ استمعال کئے گئے تھے ان کو پڑھ کرہی ان کی طبیعت بوجھل ہو گی تھی کیونکہ ان کے پچاس سالہ کیریئر میں انہوں نے کسی اخبار میں پہلی دفعہ ایسی بازاری زبان دیکھی تھی.
اس خبر کی اشاعت کے بعد کچھ صحافتی حلقوں کی جانب سے اخبار کے ایڈیٹر اور دیگر عملے کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا تھا مگر روزنامہ امت کے معاملات سے آگاہی رکھنے والے ایک شخض نے وائس پی کے کو بتایا کہ یہ خبر اخبار کے مالک رفیق افغان کی ذہنی اختراع تھی اور وہ ہی اس کے ذمے دار ہیں.
پریس کونسل روزنامہ امت کو نوٹس بھجوانے کو تیار
پاکستان میں اخبارات اور رسائل کے احتساب کے لئے ایک ادارہ پریس کونسل آف پاکستان تو مو جود ہے مگر یہ ادارہ کافی حد تک غیر فعال ہے. جب ہم نے اس نا زیبا خبر کی اشاعت کے حوالے سے پریس کونسل سے رابطہ کیا تو انکا کہنا تھا کہ یہ معاملہ ان کے علم میں ہے اور اس حوالے سے ایک فائل کونسل کی جوڈیشل برانچ کو بھجوا دی ہے جو خبر کا جائزہ لینے کے بعد اخبار کو شوکاز نوٹس جاری کر دے گی.
عورت مارچ کے خلاف جھوٹی خبر نہ دینے پر رپورٹر فارغ
اس سال عورت مارچ کے انعقاد کے بعد سے ہی روزنامہ امت نے مارچ کے منتظمین اور شرکا کے خلاف ایک مہم کا آغاز کیا ہوا ہے. اخبار نے جعلی ویڈیوز کی بنیاد پر عورت مارچ کی منتظمین کے خلاف توہین مذہب کی کمپین چلائی اور ان کے خللاف عوامی جذبات کو ابھارا. ان گمراہ کن خبروں کی اشاعت کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں عورت مارچ کے منتظمین کے خلاف توہین مذہب کے مقدمات درج کرنے کے لئے درخواستیں دائر کی گی.
جب اس حوالے سے اخبار کے سینئر رکن اور ڈپٹی چیف رپورٹر عظمت خان نے اختلاف کیا اور عورت مارچ کے خلاف خبر دینے سے انکار کیا تو اخبار نے ان کو ملازمت سے ہی فارغ کر دیا. عظمت خان نے برطرفی کے بعد ایک ٹویٹ میں لکھا کہ “عورت مارچ کے مندرجات اور مطالبات کی تائید اور انکار کے علاوہ اصل مسئلہ اس میں توہین رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلیم کا تھا ۔ اب جبکہ توہین ہوئی نہیں تو اس کو توہین کیونکر لکھا جاتا ؟ اصل اختلاف اس پر بنا ۔”