اپریل ٥ ٢٠٢١
تحریر: احمد سعید
لاہور
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے انسداد دہشت گردی کے جج آفتاب آفریدی اورخاندان کے قتل کی مذمت کی ہے. ساتھ ہی میں وکلاء تنظیموں نے قتل کے مقدمے میں سینئر وکیل اور صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن لطیف آفریدی اور ان کے بیٹے دانش آفریدی کے نام قتل کی ایف آئی آر سے خارج کرنے کامطالبہ بھی کیا ہے.
سپریم کورٹ بار کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا ہے لطیف آفریدی نے اس واقعے سے اظہار لا تعلقی کرتے ہوئے کہا ہے کہ چار اپریل کی شام کو وہ اپنے بیٹے کے ہمراہ اپنی زمینوں پر موجود تھے اور واقعے کا علم ہوتے ہی انہوں نے اس کی شدید مذمت کی تھی کیوں کہ عورتوں اور بچوں پر حملہ کرنا پشتوں روایات کے خلاف ہے.
لطیف آفریدی کا کہنا تھا کہ وہ مقدمے کی تفتیش کے حوالے سے متعلقہ اداروں سے مکمل تعاون کریں گے
انسداد دہشت گردی عدالت سوات کے جج آفتاب آفریدی کی گاڑی پر چار اپریل کی رات صوابی کے قریب امبر انٹرچینج پر اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ اپنے اہلخانہ کے ہمراہ اسلام آباد جا رہے تھے. اس حملے کے نتیجے میں جج آفتاب آفریدی، ان کی اہلیہ، بہو اور بائیس مہینے کا پوتا جاںبحق جب کہ ڈرائیور اور گارڈ زخمی ہو گے تھے.
واقعے کی ایف آئی آر اور پولیس کا موقف
آفتاب آفریدی کے بیٹے ماجد آفریدی کی مدعیت میں درج ایف آئی آر میں دانش آفریدی اور جمال آفریدی کو مرکزی ملزم نامزد کیا گیا ہے جب کہ لطیف آفریدی سمیت دیگر پانچ لوگوں کو قتل کے واقعے میں سہولت دینے کے الزام میں مقدمے میں نامزد کیا گیا ہے.
واقعے کی ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ سات اور تعزیرات پاکستان کی دفعات 302 (قتل) 324 (اقدام قتل) 148 ( آتشیں اسلحہ رکھنا ) 149, 109 ( سہولت کاری) 427 ( جائیداد کو نقصان) 353 ( سرکاری ملازم پر حملہ) 34 ( مشترکہ نیت) شامل کی گی ہیں.
مقدمے کے تفتیشی افسر کے مطابق ابھی تک کسی ملزم کو گرفتار نہیں کیا گیا اور نہ ہی مقدمے کے مدعی کی جانب سے ان گاڑیوں کے نمبرز فراہم کے گئے جن سے مبینہ طور پر جج کی گاڑی پر فائرنگ کی گی تھی. تفتیشی افسر کی جانب سے مزید بتایا گیا کہ زخمی ڈرائیور اور گارڈ کا بیان قلمبند کر لیا گیا ہے اور واقعہ پرانی دشمنی کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے. ایف آئی آر میں نامزد ایک شخض جمیل جرمنی میں مقیم ہیں.
پرانی دشمنی کی کہانی
مختلف ذارئع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق لطیف آفریدی اور آفتاب آفریدی کے درمیان دور کی رشتے داری ہے اور کچھ معملات پر ان کے درمیان اختلافات بھی بہر حال موجود تھے مگر اس دشمنی میں اضافہ 2015 میں اس وقت ہوا جب آفتاب آفریدی کے چچا زاد بھائی سمیع الله آفریدی کو قتل کر دیا گیا تھا. اگرچہ اس واقعے کی ایف آئی آر طالبان کے خلاف کاٹی گی کیوں کہ قتل کے وقت سمیع الله آفریدی ڈاکٹر شکیل آفریدی کے وکیل تھے مگر مقتول کے خاندان کے کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اس قتل کے پیچھے بھی لطیف آفریدی اور ان کے خاندان کا ہاتھ تھا.
واضح رہے کہ سمیع الله آفریدی کے قتل کے حوالے سے لطیف آفریدی پر لگاۓ گے الزمات کے حوالے سے کوئی ثبوت کبھی سامنے نہیں لاے گے.
کچھ عرصے بعد لطیف آفریدی کے خاندان کے ایک شخص کو قتل کر دیا گیا جس کا مقدمہ آفتاب آفریدی کے خاندان والوں کیحلاف درج کیا گیا مگر بعد ازاں جرگے کےکہنے پر راضی نامہ کرکے معاملات کو رفعہ دفعہ کردیا گیا تھا
بار کونسلز کا محتاط رد عمل
اس واقعے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین خوشدل خان کا کہنا تھا جج کا قتل انتہائی تشویش ناک بات ہے مگر لطیف آفریدی کا نامزد ہونا ان کے لئے حیران کن تھا کیوں کہ ان کی اطلاعات کے مطابق آفتاب آفریدی اور لطیف آفریدی کے قریبی مراسم تھے. خوشدل خان کا کہنا تھا اس مقدمے کے حوالے سے با قاعدہ موقف تو پاکستان بار کونسل کی میٹنگ کے بعد ہی جاری ہوگا مگر وہ کوشش کریں گے کہ معملات کو مل بیٹھ کر خوش اسلوبی سے طے کے لیا جاے.
کے پی بار کونسل کے وائس چیئرمین نعیم الدین کا موقف تھا کہ کیوں کہ آفتاب آفریدی انسداد دہشت گردی عدالت کے جج بھی تھے اس لئے پولیس کو اس قتل کی تمام زاویوں سے تفتیش کرنی چاہئے اور صرف پرانی دشمنی کے پہلو تک ہی محدود نہیں رہنا چاہئے.