اپریل ١٢ ٢٠٢١

تحریر: احمد سعید


لاہور

پاکستان میں انسانی حقوق کی سب سے توانا آواز سمجھے جانے والے ابن عبدلرحمان جو کہ آئی-اے رحمان کے نام سے جانے جاتے تھے بارہ اپریل بروز سوموار کو لاہور میں نوے برس کی عمر میں انتقال کر گئے.

آئی-اے رحمان کئی عشروں تک شعبہ صحافت سے وابستہ رہے اور مختلف اداروں میں سب ایڈیٹر سے لے کر ایڈیٹر انچیف تک خدمات سر انجام دی.

آئی اے رحمان کے والد وکیل تھے۔ تقسیم کے بعد وہ انڈیا سے نقل مکانی کرکے ملتان میں شجاع آباد آ گئے اور وہاں سے لاہور منتقل ہوگئے۔

آئی اے رحمان کا صحافتی کیریئر

آئی اے رحمان نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایس سی فزکس کیا اور اس کے بعد سی ایس ایس کا امتحان دیا جس میں وہ پاس بھی ہوگئے لیکن کوٹہ میں نشست نہ ہونے کی وجہ سے تقررری نہیں ہوئی۔ بعد میں وہ اس بات پر خوشی کا بھی اظہار کرتے تھے کہ اچھا ہوا کہ وہ سرکاری افسر نہ بنے۔

آئی اے رحمان علی گڑھ میں زمانے طالب علمی سے ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوچکے تھے اور وہ زندگی کے آخری ایام تک مارکسٹ رہے۔

سنہ 1970 میں میں جب صحافت سے تعلق نہ رکھنے والوں کو ویج ایوارڈ میں شامل کرنے کے لیے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ ۔۔۔۔۔ نے 12 روز ہڑتال کی تو وہ اس میں متحرک رہے جس کی وجہ سے انھیں پاکستان ٹائمز سے فارغ کردیا گیا۔

بنگلہ دیش کی آزادی کے وقت وہ اردو روزنامے آزاد سے منسلک تھے جس کی انہوں نے بنیاد ڈالی تھی۔۔۔

اس کے بعد ٹریڈ یونیںز میں ان کی دلچسپی بڑھ گئی ۔۔۔ 1977 کے مارشل لا کے بعد وہ جیل میں رہے لیکن پھر بھی اپنے قلم کے ذریعے انہوں نے آمریت کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھی.

آپ نے سنہ 1987 میں مرحومہ عاصمہ جہانگیر کے ساتھ مل کر کمیشن براۓ انسانی حقوق کی بنیاد رکھی اور وہ مرتے دم تک اس کے اعزازی ترجمان بھی تھے. انہوں نے ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ہمیشہ آواز بلند کی اور اپنے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا تھا.

ضیا الحق کے دور میں جب ملک میں بدترین آمریت مسلط تھی اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ آمر کو اپنے قلم کے ذریعے للکارےتو ایسے میں آئی-اے رحمان کی آواز پہلے سے بھی زیادہ بلند ہو گی تھی.

‘آ ئی-اے رحمان کا انتقال انسانی حقوق کی تحریک کے لئے نا قابل تلافی نقصان ہے’

جیسے ہی آئی-اے رحمان کی وفات کی خبر میڈیا اور سوشل میڈیا پر بریک ہوئی تو دنیا بھر سے ان کے چاہنے والوں کی جانب سے تعزیتی پیغامات کا سلسلہ شروع ہو گیا. پاکستان میں تعینات یورپین ممالک کے سفرا نے آئی-اے رحمان کے انتقال کو پاکستان میں انسانی حقوق کی تحریک کے لئے ایک نقصان قرار دیا

لاہور میں موجود مخلتف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے انسانی حقوق کمیشن کے دفتر پہنچ کر آئی-اے رحمان کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کیا اور کہا کہ آج وہ ایک ایسے شخض سے محروم ہو گئے ہیں جو انسانی حقوق کے کارکنوں کے لئے مشعل راہ تھے.

انسانی حقوق کمیشن کی چیئر پرسن حنا جیلانی نے آئی-اے رحمان کی وفات کو پاکستان کی انسانی حقوق کی تحریک کے لئے بڑا نقصان قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کا خلا پر کرنا مشکل کام ہوگا کیوں کہ ان جیسا صاحب علم آدمی کم ہی ہوتے ہیں

حنا جیلانی کا مزید کہنا تھا کہ آئی-اے رحمان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ ہر عمر کے افراد کے ساتھ رابطہ استوار رکھتے تھے اور وہ لوگوں کو کامیابی کے پیچھے بھاگنے کی بجاۓ مستقل جدوجہد کا درس دیتے تھے

بزرگ صحافی حسین نقی کا کہنا ہے کہ آئی-اے رحمان کا صحافتی کیریئر ستر سال پر مشتمل تھا اور وہ ان کے اور ان جیسے ہزاروں صحافیوں کے لئے ایک رول ماڈل تھے.

سینئر وکیل سروپ اعجاز کے مطابق آئی-اے رحمان کے دنیا سے چلے جانے سے پاکستان کی انسانی حقوق کی کمیونٹی یتیم ہو گی ہے اور یہ نقصان کئی حوالوں سے نا قابل تلافی ہے

سینئر صحافی وجاہت مسعود نے آئی-اے رحمان کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پہلی پہچان ایک سچے پاکستانی کی تھی اور وہ اپنی رائے بغیر خوف کے بیان کیا کرتے تھے

انسانی حقوق کے حوالے سے ان کی جدوجہد کو سراہا گیا اور ان کو 2003 میں انہیں نیورمبرگ انٹرنیشنل ہیومن رائٹس ایوارڈ دیا گیا ۔۔۔ 2004 میں انہیں رامن سیسے ایوارڈ فار پیس اینڈ انٹرنیشنل انڈرسٹینڈنگ ملا.

آئی-اے رحمان کے انتقال کی وجہ سے پاکستان ایک انسانی حقوق اور آزادی اظہار رائے کی ایک مضبوط آواز سے محروم ہو گیا ہے مگر ان کے نظریات اور افکار آنے والے کئی نسلوں کے لئے مشعل راہ ضرور ثابت ہو گئے اور ان کے شروع کیے گئے مشن کو آگے بڑھانے میں مدد فراہم کرتے رہیں گئے.