مارچ ٦ ٢٠٢١

تحریر: احمد سعید


لاہور

وزیر اعظم عمران خان نے ہفتہ کے روز چھ مارچ کو قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا. ان کو حکمران پاکستان تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں کے 178 ارکان نے اعتماد کا ووٹ دیا.

ہزار اٹھارہ میں وزیر اعظم کے انتخاب میں عمران خان کو 176 اراکین اسمبلی نے ووٹ دیا تھا. وزیر اعظم کو اعتماد کا دوووٹ لینے کے لئے قومی اسمبلی کا اجلاس صدر پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 91 کی شق سات کے تحت بلایا تھا.

وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں کہا تھا کہ حفیظ شیخ کی شکست کے بعد اپوزیشن ان کے خللاف تحریک عدم اعتماد لا سکتی ہے اس لئے وہ خود ہی ایوان سے دوبارہ اعتماد کا ووٹ لیں گے.

اعتماد کے ووٹ کے بعد یہ قانونی بحث شروع ہو چکی ہے کہ کیا اب اپوزیشن چھ مہینے تک وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا سکتی ہے یا نہیں.

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے ایک ٹی وی پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد وزیر اعظم اگلے چھ مہینے تک محفوظ ہو جائیں گئے . تاہم پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کا موقف ہے کہ چھ ماہ تک عدم اعتماد کی تحریک نہ لانے کی قدغن آئین میں موجود نہیں ہے اور تحریک عدم اعتماد کے وقت کا تعین پی ڈی ایم کرے گی.

اس اہم آئینی اور قانونی نقطے کی وضاحت کے لئے وائس پی کے ڈاٹ نیٹ نے سینئر وکلاء اور آئینی ماہرین سے بات کی جن میں سے اکثریت کی رائے یہ تھی کہ اعتماد کے ووٹ کے حصول کے بعد بھی وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جا سکتی ہے

سینئر قانون دان اور دو مرتبہ قائم مقام صدر پاکستان کے عہدے پر فائز رہنے والے وسیم سجاد کا موقف تھا کہ چھ ماہ کے اندر تحریک عدم اعتماد لانے سے متعلق کوئی آئینی قدغن موجود نہیں ہے اس لئے اپوزیشن چاہئے تو وہ آئین کے آرٹیکل 91 کے تحت وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ایوان میں لا سکتی ہے.

سابق اٹارنی جنرل اوشتر اوصاف کا کہنا تھا کہ اعتماد کے ووٹ کے لئے بلایا گیا اجلاس ہی غیر اینی تھا کیوں کہ یہ اجلاس صدر اس وقت بلاتا جب اس کا کو یقین ہو جاے کہ وزیر اعظم اکثریت کھو چکا جب کہ آج کا اجلاس تو وزیر اعظم کی ایڈوائس پر طلب کیا گیا تھا. ” لہذا اعتماد کی تحریک کی کامیابی سے وزیر اعظم اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد سے ہرگز محفوظ نہیں ہوئے”

سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا مؤقف تھا اعتماد کا ووٹ اور تحریک عدم اعتماد دو الگ موضوعات ہیں اور ان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہوتا، اس لئے اگر اپوزیشن عدم اعتماد کی تحریک لانا چاہئے تو اس حوالے سے آئینی یا قانونی رکاوٹ موجود نہیں.

اس حوالے سے جب ہم نے سینئر آئینی ماہر اور سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن حامد خان سے بات کی تو انکا موقف تھا کہ ویسے تو چھ ماہ تک دوبارہ کوئی ایک جیسی تحریک نہ لا نے کی قدغن تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے ہی ہے لیکن آئین میں اعتماد اور عدم اعتماد کے الفاظ ہر جگہ ایک ساتھ ہی استمعال ہوئے ہیں، اس لئے ان کی رائے میں آج کے اعتماد کے ووٹ کے بعد چھ مہینے تک تحریک عدم اعتماد نہیں لائی جا سکتی.

اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد وزیر ا عظم عمران خان اور تحریک انصاف کے وزرا کافی مطمئن نظر آ رہے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اسلام آباد سے سینیٹ کی نشست ہارنے کے بعد جو سیاسی دھچکا حکومت کو پہنچا تھا اس کا کافی حد تک ازالہ آج ہو گیا ہے مگر اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا پی ڈی ایم اپنی احتجاجی تحریک کو سڑکوں پر لے کر جاتی ہے یا پھر سیاسی جوڑ توڑ کر کے و زیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے کر آ ے گی .