مارچ ٢٧ ٢٠٢١
تحریر: احمد سعید
لاہور
اقوام متحدہ کی کونسل براۓ انسانی حقوق نے ایک خط کے ذریعے پاکستان میں متعدد آزاد صحافیوں اور انسانی حقوق کے محافظوں کے خلاف مبینہ جھوٹے الزامات پر دائر مقدمات پر حکومت کی توجہ دلائی۔ یہ خط اقوام متحدہ کے جنیوا دفتر میں پاکستان کے مستقل نمائندے خلیل الرحمان کو لکھا گیاہے.
اس خط کو تین افراد آئرین خان، ایلینا اسٹائنرٹ اور میری لاؤلر نے تحریر کیا ہے. آئرین خان، آزادی کے حق کے فروغ اور تحفظ کے لئے اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی ہیں، یلینا اسٹائنرٹ، نظربندی کے متعلق ورکنگ گروپ کی وائس چیئرپرسن ہیں جبکہ میری لاؤلر انسانی حقوق کے محافظوں سے متعلق اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی ہیں.
خط میں صحافیوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے جھوٹے الزامات عائد کرنے اور آزادی اظہار رائے کو دبانے کے لئے منظم انداز میں دباؤ ڈالنے کے واقعات پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے.
وائس پی کے ڈاٹ نیٹ کی مدد کے ساتھ بنائی گئی اس دستاویز میں متعدد صحافیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے ، جن کو ان کی رپورٹنگ کی وجہ سے دھمکیاں دی گی یا ہراساں کیا گیا ہے.
اسد علی طور اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں جنہوں نے مسلح افواج اور سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کی رپورٹنگ کی تھی. چودہ ستمبر ٢٠٢٠ کو اسد طور کے خلاف انٹرنیٹ پر غیر قانونی مواد پھیلانے، دوسروں کو بدنام کرنے، نفرت انگیز تقریر سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا. تاہم مبینہ غیر قانونی مواد کی تفصیلات کو منظر عام پر نہیں لا گیا تھا. بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے صحافی اسد طور کے خلاف درج ایف آی آر کو منسوخ کر دیا تھا.
عجیب علی لاکو سندھ سے تعلق رکھنے والے صحافی ہیں اور وہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں. وہ مختلف اخبارات کوشش ، امان اور جرات سے منسلک رہے ہیں. ایران کے ساتھ ڈیزل کی غیر قانونی تجارت میں کچھ سینئر پولیس عہدیداروں کی شمولیت سے متعلق ان کی خبر کی اشاعت کے بعد ان پر 21 علیحدہ ایف آئی آرز درج کی گئیں۔ان پر انسداد دہشت گردی ایکٹ اور تعزیرات پاکستان کے تحت مجمو عی طور پر 42 جرائم کا الزام عائد کیا گیا تھا مگر ٢٠١٩ میں سندھ ہائی کورٹ نے عجیب علی پر لگے تمام الزامات کو خارج کر دیا تھا.
رانا ارشد سلہری اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے صحافی ہیں جنہوں نے مسلح افواج اور سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کے بارے میں مختلف خبریں شائع کی تھی. یکم اکتوبر ، 2020 کو ارشد سلہری کو ایف آئی اے کے سامنے پیش ہونے کے لئے نوٹس دیا گیا مگر ان پر عائد الزامات کی کوئی تفصیل نہیں فراہم کی گیی تھی. اس نوٹس کے بعد ایک ہفتے بعد ایف آئی اے حکام کی ایک ٹیم نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا۔
ارشد سلہری کی جانب سے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنے کے بعد ، ایف آی اے نے اپنا نوٹس واپس لے لیا ، لیکن 20 اکتوبر 2020 کو ایک نیا نوٹس جاری کر دیا جس میں بھی الزامات کے حوالے کوئی معلومات نہیں دی گی تھی. 2 نومبر 2020 کو ، ایف آئی اے نے عدالت میں اعتراف کیا کہ سلہری کے خلاف اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔
بلال فاروقی ایکسپریس ٹریبیونسے منسلک صحافی ہیں اور انہوں نے جبری گمشدگیوں پر کافی رپورٹنگ کی ہیں. بلال فاروقی کے خلاف فیس بک پر ‘انتہائی قابل اعتراض مواد’ شیئر کرنے کے الزام میں عوامی فساد کو بھڑکانے ، نفرت انگیز تقریر کرنے کی دفعات کے تحت نو ستمبر کو ایک مقدمہ درج کیا گیا تھا. اسد طور کے کیس کی طرح بلال فاروقی کو بھی قابل اعتراض مواد کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں دی گیی تھی اور ان کو ١١ ستمبر کو سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس اہلکاروں نے حراست میں لے لیا تھا لیکن اگلے ہی دن عدالت نے انھیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا.
میاں دائود ایک عدالتی رپورٹر اور وکیل ہیں جن کا ایک یوٹیوب چینل بھی ہے جہاں وہ سیاسی موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں. 24 اکتوبر ، 2020 کو انھیں ایف آئی اے نے ایجنسی کے سائبر کرائم رپورٹنگ سنٹر اسلام آباد کارروائی کے لئے طلب کیا ، تاہم انہیں کبھی بھی یہ اطلاع نہیں دی گئی کہ ان کے خلاف کیا الزامات لگائے جارہے ہیں۔ انہوں نے ایف آی اے کے سمن کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا مگر عدالت نے یہ کہ کر درخواست مسترد کر دی کہ یہ معاملہ اس کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا.
عامر میر لاہور میں مقیم صحافی ہیں جو ایک یو ٹیوب چنیل گوگلی نیوز کے لئے کام کرتے ہیں۔ 30 اگست ، 2020 کو ، انہیں ایف آئی اے کی جانب سے اپنے یوٹیوب چینل پر شائع ہونے والی رپورٹس کے ذرائع کا بتانے کے لئے نوٹس بھیجا گیا. انھیں حزب اختلاف کے رہنماؤں کی گرفتاری کی خبریں شائع کرنے کی پاداش میں ایف آی اے کے سامنے پیش کیا گیا. لیکن ان کو نہ ہی ان پر عائد الزامات سے آگاہ کیا گیا تھا اور نہ ہی پولیس تفتیش کا کوئی جواز فراہم کیا گیا.
ابصار عالم اسلام آباد میں مقیم صحافی اور سابق چیئرمین پیمرا ہیں۔ 11 ستمبر 2020 کو اس کے خلاف بغاوت ،دوسروں کو بدنام کرنے ، عوامی جذبات کو بھڑکانے کے الزام میں ایف آئی آر درج کی گئی۔ شکایت کنندہ انصاف لائرز فورم سے وابستہ ایک وکیل تھا جس نے اپنی درخواست میں ابصار عالم کے ٹویٹر اکاؤنٹ کا ذکر بھی کیا جس کے ذریعے وہ مالی بدعنوانی اسکینڈلز پر بات کرتے تھے. ابصار عالم کو ابھی تک کسی تفتیشی کارروائی میں طلب نہیں کیا جاسکا۔
فخر دررانی ایک انگریزی جریدے دی نیوز سے منسلک ایک صحافی ہیں اور انہوں نے سابق وفاقی وزیر براۓ آبی وسائل فیصل واوڈا کی دہری شہریت کے حوالے سے کافی خبریں رپورٹ کی تھی جس کے بعد وفاقی وزیر کے خللاف اسلام آباد ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن میں نا اہلی کی کاروائی کا آغاز کیا گیا.
. 2 اکتوبر ، 2020 کو اے آر وائی پر نشر ہونے والے ایک پروگرام میں فخر درانی کو ’غدار‘ قرار دیا گیا اور ان پربھارتی خفیہ ایجنسی (را) کے ساتھ روابط رکھنے کا الزام لگایا گیا. بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے فخر دررانی کو ہراساں کرنے سے باز رہنے کا حکم دیا.
احمد نورانی فیکٹ فوکس کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے محافظ صحافی ہیں۔ اس سے قبل وہ دی نیوز سے وابستہ تھے ، اور انہوں نے پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسیوں پر کافی تنقیدی رپورٹس شائع کی تھی جس کی وجہ سے انھیں دھمکیاں دے کر ہراساں کیا گیا. 2014 سے 2017 کے درمیان ، ان کے آبائی شہر بہاولپور میں ان کے رشتےداروں کے گھروں پر ایک بار حملہ ہوا جب کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے چھ دفعہ چھاپہ مارا گیا. 27 اکتوبر 2017 کواسلام آباد کے زیرو پوائنٹ پر چھ نامعلوم افراد نےاحمد نورانی پر لوہے کی سلاخوں سے حملہ کیا۔
خط کے مطابق 27 اگست 2020 کو سابق ڈی جی آئی ایس پی آر عاصم سلیم باجوہ کے مبینہ غیر ملکی اثاثوں سے متعلق ایک رپورٹ کی اشاعت کے بعد سے احمد نورانی اور ان کے اہلخانہ کو موت کی دھمکیاں ملنا شروع ہو گی. ایک نیوز چنیل نے ان کی اور ان کے ساتھیوں کیتصاویر چلا کر ان پر را کے ساتھ تعلقات رکھنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ خط کے مطابق مذکورہ چنیل کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ آئی ایس پی آر سے وابستہ ہے .
اظہار الحق واحد لاہور سے تعلق رکھنے والے صحافی ہیں جو اس سے پہلے روزنامہ خبریں سے وابستہ تھے ، اور اب “با غی” کے نام سے فیس بک پیج چلاتے تھے جو کہ اب بند کر دیا گیا ہے. انہوں نے جنوری 2020 کے اوائل میں جنرل (ر) پرویز مشرف پر مختلف خبریں شائع کی تھیں۔ 15 جنوری 2020 کو ، ان کے گھر پر ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ ، لاہور کے کلرک سمیت 30 کے قریب افراد نے چھاپہ مارا مگر اس وقت وہ گھر پر موجود نہیں تھے.
مبینہ طور پر اہلکاروں نے ان کے والدین کے ساتھ بدسلوکی کی اور ایک سیل فون اور دو لیپ ٹاپ ضبط کرلئے. اسی دن انہیں ایف آئی اے کی جانب سے بغیر تاریخ کے درج شدہ ایک نوٹس بھی بھیجا گیا.
16 جنوری 2020 کو جب اظہار الحق ایف آی اے کے دفتر میں موجود تھے تو ان کے خلاف عوامی فسادات ، نفرت انگیز تقریروں اور دیگر بیس جرائم کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے ان کا قومی شانختی کارڈ اور بینک کارڈ ضبط کرلیا گیا تھا۔ بعدازاں انھیں ایف آئی اے نے تین دن کے لئے حراست میں لیا ، جس کے دوران انھیں غدار قرار دے کر ان کے ساتھ بدسلوکی اور تشدد کیا گیا۔ 20 جنوری ، 2020 سے ، وحید کو تین ماہ تک قید تنہائی میں رکھا گیا۔ انہیں 27 مارچ 2020 کو لاہور ہائی کورٹ نے ضمانت پر رہا کر دیا گیا.
گل بخاری صحافی اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں ، جنہوں نے مسلح افواج کی عدلیہ اور سیاست میں مداخلت کے بارے میں رپورٹنگ کی ہے. 5 جون ، 2018 کو گل بخاری کو مبینہ طور پر ریاستی اہلکاروں نے مختصر مدت کے لئے اغوا کیا گیا اورپھر اسی سال کے آخر میں پاکستان چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا. جولائی اور اکتوبر 2020 کے درمیان ، جنرل (ر) مشرف اور سیکیورٹی اداروں سے وابستہ ایک وکیل نے گل بخاری سے متعلق تین قانونی نوٹس جاری کیے جو وزارت داخلہ کے سکریٹری ، ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل اور ٹویٹر کو بھیجے گئے تھے۔
20 اکتوبر کو اسی وکیل نے گل بخاری کے خلاف سپریم کورٹ کے جج کے خلاف ٹویٹ کرنے پر ایف آئی اے میں 3 صفحات پر مشتمل شکایت درج کروائی۔ وہ فی الحال جلاوطنی کی زندگی میں ہے۔
، اقوام متحدہ کے نمائندوں نے نوٹ کیا کہ مذکورہ صحافیوں کے خلاف یہ مقدمات اس وقت درج کے گئے جب انہوں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر خبریں شائع کی. اس طرح کی کاروائیاں میڈیا پر عائد پابندیوں اور صحافیوں کو آزادی اظہار رائے سے روکنے کے سلسلے کو بے نقاب کرتی ہیں.
خط میں اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ حکومت اظہار رائے کی آزادی کے لئے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے ، جو کہ شہری اور سیاسی حقوق سے متعلق بین الاقوامی عہد نامہ کی شقوں 9 ، 14 اور 19 کے تحت درکار ہیں ، جس کی 23 جون ، 2010 کو پاکستان نے توثیق کی تھی۔
اس میں مزید استدعا کی گئی ہے کہ حکومت مذکورہ صحافیوں کی گرفتاریوں اور ان پر عائد الزامات کے بارے میں تفصیلات کی فراہم کرے ، اور اس بات کو یقینی بناے کہ صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن اپنا کام بغیر کسی دباؤ اور ہراسانی کے احسن انداز میں ادا کرسکیں.