مارچ ٢ ٢٠٢١
تحریر: احمد سعید

لاہور

منگل کے روز  سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کو  وکلا کے چیمبر گرائے جانے سے متعلق  اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر اپیل خارج کر دی.
عدالت نے اپنے فیصلے میں  لکھا کہ وکلاء  نے   بیان حلفی جمع  کروایا  ہے  وہ دو مہینے کے اندر رضا کارانہ  طور پر ہی  فٹبال گراؤنڈ خالی کر دیں گئے اور عدالت نے  ضلعی انتظامیہ اور  وفاقی ترقیاتی ادارے
( سی ڈی اے) کو   دو ماہ کا  وقت مکمل  ہونے کے بعد   فٹبال  گراؤنڈ میں موجود تمام غیر قانونی چیمبرز اور تجاوزات کو گرانے اور گراؤنڈ کو اصل حالت میں بحال کرنے  کا حکم دیا ہے.
اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وہ کسی صورت  غیر قانونی چیز کو قانونی تحفظ دے سکتے ہیں. جس نے پریکٹس کرنی ہے    تو وہ اپنا دفتر کہیں اور بنا لے.
سماعت کے دوران وکلاء کے وکیل شعیب  شاہین  نے عدالت کو آگاہ کیا کہ  کچھ ضلعی عدالتیں بھی  فٹبال گراؤنڈ اور قریبی پارک میں قائم ہیں تو عدالت نے ایسی تمام عدالتی تعمیرات کو بھی گرانے اور جگہ کو واگزار کروانے کا حکم جاری کیا. عدالت نے اس حوالے سے رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کو حکم دیاکہ وہ غیر قانونی جگہ پر قائم عدالتوں کو فوری طور پر کسی مناسب مقام پرمنتقل کرنے کے لئے اقدامات کریں
اس کے بعد عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سترہ فروری کے فیصلے کے خلاف  پاکستان بار کونسل مختلف بار کونسلز اور ایسوسی ایشنز کی جانب سے دائر اپیلوں کو خارج کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا.
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں سی ڈی اے کو تئیس مارچ تک اسلام آباد کچہری سے ملحقہ فٹبال گراؤنڈ سے تمام چیمبرز کو ہٹانے اور گراؤنڈ کو اپنی اصل حالت میں بحال کرنے اور یوم پاکستان پر وہاں فٹبال میچ کے انعقاد کا حکم دیا تھا.
معاملے کا پس منظر      
اگر چہ فٹبال گراؤنڈ پر وکلاء کی جانب سے چمبرز کی تعمیر کا معاملہ تو دو تین سال سے چلا آ رہا ہے مگر اس میں شدت اس سال سات فروری کو اس وقت آئی جب سی ڈی اے کے انفورسمنٹ سیل نے پولیس کی مدد سے درجنوں غیر قانونی چیمبرز کو مسمار کر دیا تھا.
اس کے بعد وکلاء کی ایک بڑی تعداد نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا رخ کیا اور وہاں پر شدید ہنگامہ آرائی بھی کی گی. چیف جسٹس سمیت دیگر ججز  کو کام کرنے  سے روک دیا گیا اور عدالتوں کو تالے لگا دیے.
بعد ازاں پولیس اور رینجرز کی بھری نفری نے موقع پر پہنچ کر وکلاء کو منتشر کیا.
بار اور بینچ میں کشیدگی
اس واقعے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے واقعے میں ملوث وکلاء کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز کیا گیا اور پاکستان بار کونسل کو ملزم وکلاء کے لائسنس کو معطل کرنے کی سفارش کی تھی.
اس کے علاوہ پولیس نے اسلام آباد بار سے تعلق رکھنے والی کئی وکلاء کے خلاف انسداد دہشت گردی سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے  کئی وکلاء کو حراست میں لے لیا تھا  اب 10 وکلا جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل میں قید ہیں.
وکلاء کی گرفتاری کے خلاف پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے شدید ردعمل دیا اور اسے بار اور بینچ کے خلاف سازش قرار دیا. بار لیڈرز نے چیف جسٹس پاکستان اطہر من الله سے درخواست کی کہ وہ اس معاملے کو بات چیت کے ذریعے خوش اسلوبی سے حل کریں.
اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے نو منتخب صدر جیل میں  
ہفتے کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سالانہ انتخابات منعقد ہوئے مگر اس سال کے انتخابات کی خاص بات یہ تھی کے صدارت کے دونوں امیدوار ، راجہ زاہد محمود اور ملک نوید حیات دونوں ہی ہائی کورٹ پر حملے کے مقدمے میں گرفتار تھے اور اڈیالہ جیل میں بند تھے.
تاہم انتخابات کے لئے پولنگ معمول کے مطابق ہوئی جس میں راجہ زاہد محمود نے  فاتح حاصل کر لی. سیکرٹری کی نشست پر تصدق حنیف کامیاب رہے، تاہم وہ بھی ہائی کورٹ حملے میں پولیس کو مطلوب ہیں اور گرفتاری سے بچنے کے لئے حملے کے بعد سے ہی روپوش ہیں