مارچ ٢٨، ٢٠٢١
تحریر: فرزانہ علی
پشاور
بنوں کے علاقے جانی خیل میں 21 مارچ کو چار نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشوں کا برآمد ہونا اب تک ایک معمہ بنا ہوا ہے۔معاملے کی سنگینی اور کئی سٹیک ہولڈرز کے اس میں شامل ہونے کی وجہ سے واقعے کے خلاف قبیلہ جانی خیل کی جانب سے علاقے میں بیٹھنے والا دھرنا ساتویں روز بھی جاری ہے۔شروع میں انتظامیہ کی طرف سے مذاکرات کی کئی کوششیں ناکام ہو گئیں کیونکہ مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ اس واقعے کا مقدمہ ’ذمہ دار‘ سرکاری اہلکاروں کے خلاف درج ہو او ر علاقے میں ’گڈ و بیڈ طالبان‘ کا خاتمہ کرکے امن و امان قائم کیا جائے۔تاہم ان شرائط پر بات کرنا شاید انتظامیہ کے بس کی بات نہیں تھی ۔ اس لئے مذاکرات کا ٹاسک جید علماءکے حوالے کر دیا گیا جنہوں نے دھرنا کے منتظمین کے ساتھ مذاکرات کئے اور دھرنے کے منتظمین نے کچھ ردو بدل کے ساتھ اپنے مطالبات کچھ یوں پیش کئے۔
1۔۔جانی خیل میں امن کا قیام ممکن بنانا
2۔۔ جانی خیل کے زیر حراست 87 لاپتہ افراد علاقہ عمائدین کے حوالے کئے جائیں جو انکی آئیندہ کی ذمہ داری لیں گے۔
3۔۔ مقتولین کیلئے شہداء پیکج کا اعلان کیا جائے۔
جس کے بعد انتظامیہ کی جانب سے بے گناہ اور چھوٹے جرائم میں زیر حراست افراد کی رہائی اور امن کے قیام کیلئے روڈ میپ تیار کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی جبکہ مالی تعاون کیلئے پہلے ہی صوبائی حکومت کی طرف سے دس دس لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا جا چکا ہے تاہم آج ایک بار پھر انتظامیہ اور دھرنا منتظمین کے مابین مذاکرات کیلئے نشست ہورہی ہے جو کہ مذاکرات کا آخری مرحلہ بتایا جاتا ہے جسکی کامیابی کی صورت میں دھرنا ختم کیا جائے گا اور ناکامی کی صورت میں مظاہرین اسلام آباد کی طرف روانہ ہونگے۔جس کے لئے وہاں موجود قبائل پوری طرح سے تیار بیٹھے ہیں۔
۔ہاتھوں میں کالے جھنڈے اٹھائے نوجوان ہر رکاوٹ پار کرنے کے درپے دکھائی دیتے ہیں نوجوانوں کے ہاتھوں میں پکڑے کالے جھنڈوں پر وطن یا کفن کے الفاظ درج ہیں ۔شاید معاملات طے پا جائیں لیکن قتل کا معمہ شاید پھر بھی حل نہ ہوسکے
۔قتل ان چار نوجوانوں کا جو آپس میں گہرے دوست تھے اور لاشیں ملنے سے دو ہفتے قبل گھر سے شکار کا کہہ کر نکلے تھے۔لیکن واپس نہ آئے اور پھر ایک چرواہے کی مدد سے لاشوں کا ملنا ۔پولیس کے مطابق گذشتہ اتوار کے روز ایک چرواہا جو جانی خیل کے علاقے پویا کے ویرانے میں اپنے مویشی چرا رہا تھا کہ اس کے کتے نے ایک جگہ پر رک کر بھونکنا شروع کیا اور ساتھ ہی وہاں سے ایک لاش کو باہر کھینچ لیا۔چرواہے نے پہلے علاقہ مکینوں کو مطلع کیا جنہوں نے پولیس کو اطلاع دی اور جب پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی تو معلوم ہوا کہ چاروں لاشوں کو ویرانے میں ایک گڑھے میں دفنایا گیا تھا۔
پولیس نے علاقہ مکینوں کی مدد سے لاشیں نکالنے کے بعد ان کو ہسپتال منتقل کر دیا۔لواحقین نے شناخت کیا کہ یہ چار لاشیں عاطف اللہ ،احمد خان رفعام اللہ اور محمد رحیم ساکنان ہندی خیل جانی خیل کی ہیں جو کئی روز سے لاپتہ تھے۔
انہی نوجوانوں سے متعلق ایک اور کہانی بھی ہے جو کہ مقامی صحافیوں نے بتائی کہ یہ نوجوان ایک سال قبل بھی اسی طرح شکار کے لیے نکلے تھے جنہیں مبینہ طور پر تحریک طالبان پاکستان نے اغوا کیا تھا۔ بعد میں ان ہی چار نوجوانوں کی ایک ویڈیو جاری کرنے کے بعد انہیں چھوڑ دیا گیا تھا۔اور اب ایک بار پھر انکا اچانک لاپتہ ہونا اور پھر لاشوں کا ملنا ایک ایسا معمہ ہے جسکے بارے میں کوئی کم ہی بات کر رہا ہے۔
اب اگر بات ہو رہی ہے تو مستقبل کی۔مذاکرات ہو رہے ہیں تو آنے والے دنوں میں اس طرح کی قتل وغارت سے بچاو اور علاقے میں امن کی بحالی سے متعلق یا پھر علاقے کے لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق۔حالانکہ دیکھا جائے تو اس سے قبل بھی ملحقہ علاقوں یعنی کے وزیرستان میں 200سے زائد افراد اندھی گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں جن میں 4 خواتین کے قتل کا معمہ بھی حل ہونا ابھی باقی ہے لیکن ہر نئی کہانی کے بعد پرانی کہانی اور ہرنئے واقعے کے بعد پرانا واقعہ پس منظر میں چلا جاتا ہے اسی طرح اب بھی لگتا یہی ہے کہ جیسے حکومت جلدی سے دس دس لاکھ روپے دے کر جان چھڑانے کے چکر میں ہے ۔اور ہو گا بھی یہی کہ مذاکرات کی کامیابی کی شکل میں شہداءپیکج تو ریلیز کر دیا جائے گا لیکن باقی کے معاملات کا حل انکے ہاتھ میں بھی نہیں جو مذاکرات کی غرض سے بیٹھے ہیں۔