فروری/ ١/ ٢٠٢١
بیورو رپورٹ
لاہور
کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) نے ”پاکستان میڈیا فریڈم رپورٹ برائے سال 2020ء” مطابق گزشتہ برس کم از کم 10صحافیوں کو ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی پر قتل کر دیا گیا-
.
رپورٹ کے مطابق سال 2020ء کا عرصہ پاکستان کے صحافیوں، دیگر میڈیا کارکنوں اور میڈیا اداروں کے لئے انتہائی نا مساعد صورتحال پر مبنی تھا اور اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے نئے اور مختلف چیلنجز درپیش رہے اور پریس کو خاموش کرنے کی کوششیں سال بھر جاری رہیں۔
.
صحافتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران ساجد حسین، ذوالفقار مندرانی، شاہینہ شاہین، قیص جاوید، جاوید اللہ خان، انور جان کھیتران، عابد حسین عابدی، نور حسن لنجوانی، ملک نظام تانی اور عزیز میمن سمیت کم از کم 10 صحافیوں قتل کیا گیا جبکہ متعدد صحافیوں کو اغوا ، تشدد کا نشانہ بنایا گیا.
.
میڈیا کارکن تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے سبب معاشی دباؤ برداشت نہ کر سکے اور زندگی کی بازی ہار گئے، ان میں کیپٹل ٹی وی سے وابستہ ایک کیمرہ مین فیاض علی تھا جو بغیر تنخواہ کے نوکری سے نکالے جانے پر شدید صدمہ کے باعث حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کر گیا، فیاض علی 10ماہ سے بغیر تنخواہ کام کر رہا تھا، جبکہ دوسرا بول نیوز کراچی ہیڈ آفس میں بطور ایسوسی ایٹ پروڈیوسر کام کرنے والا نوجوان معاذ اختر تھا جس نے تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور گھریلو مسائل سے آکر 5 نومبر 2020ء کو خودکشی کر لی.
.
سی پی این ای کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں صحافیوں کو ماورائے عدالت اور انتہائی سفاکی سے قتل کیا جاتا ہے اور ان کے قاتلوں کو غیر اعلانیہ استثنیٰ بھی مل جاتا ہے
.
رپورٹ میں صحافیوں کے خلاف ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کی طرف سے دھمکیوں کا بھی تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سال بھر میں صحافیوں پر مقدمات اور گرفتاریوں سمیت صحافیوں کو غائب کرنے کے واقعات، نا معلوم فون کالز کے ذریعے ہراساں کرنے کے واقعات، آن لائن ہراساں کرنے کے واقعات متعدد واقعات پیش آے.
.
اس کے علاوہ صحافیوں کے ساتھ ساتھ ان کے اہلخانہ بھی جسمانی حملوں اور اذیت کا شکار ہوئے اور میڈیا ہاؤسز کی بندش اور سوشل میڈیا پر کنٹرول کرنے کے لئے بھی قانون سازی کے ذریعے مختلف ہتھکنڈے استعمال کئے گئے۔
.
صحافیوں کے خلاف مقدمات اور جبری گمشدگی
.
رپورٹ میں صحافیوں کے خلاف مختلف واقعات کا حوالہ دے کر یہ کہا گیا ہے کہ ملک میں ایسی فضا رہی جیسے صحافیوں اور میڈیا کارکنوں پر حملے کرنے والوں کو سزا سے استثنیٰ حاصل ہو۔ ملک کا قانونی نظام صحافیوں کے دفاع و انصاف فراہم کرنے میں بے سود ثابت ہو رہا ہے جو کہ ایک تشویشناک صورتحال ہے۔
.
صحافی مطیع اللہ جان کو اسلام آباد سے دن دہاڑے اغوا کیا گیا۔ صحافی علی عمران سید جو جیوز نیوز سے وابستہ ہیں 23اکتوبر کی شام ضلع مشرقی کراچی سے لاپتہ ہوگئے۔ صحافی احمد نورانی کو ایک ریٹائرڈ فوجی افسر اور اس کے رشتہ داروں کے کاروبار کے بارے میں تحقیقاتی رپورٹ شائع کرنے پر جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہوئیں۔ صحافی تراب شاہ آفریدی کو دھمکی آمیز کال کرنے والے کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی لیکن وسائل کی کمی کی وجہ بتا کر مقامی پولیس نے تحقیقات روک دی۔ سینئر صحافی محمد حنیف اور سہیل وڑائچ کی کتابیں لاہور اور کراچی میں حکام کی جانب سے ضبط کی گئیں۔
.
سال 2020ء میں۔ حکومتی عہدیداروں اور دیگر سرکاری محکموں نے صحافیوں کے خلاف متعدد مقدمات درج کئے پی ٹی آئی کے سینئر رہنما جہانگیر ترین نے اینکر پرسن شاہ زیب خانزادہ اور وسیم بادامی پر ہتک عزت کا مقدمہ کرتے ہوئے دونوں صحافیوں کو ایک ایک ارب روپے ہرجانے کا نوٹس بھجوایا، ان کا مؤقف تھا کہ دونوں اینکرز نے اپنے پروگراموں میں جھوٹا الزام عائد کیا ہے کہ ملک میں چینی کی بڑھتی ہوئی قمیتوں کے ذمہ داروں میں شوگر مافیا سمیت جہانگیر ترین بھی اجتماعی طور پر شامل ہیں
.
میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوششیں
.
سال 2020ء میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے متعدد مواقعوں پر ٹی وی چینلز کو نوٹسز جاری کیے اور کچھ چنیلز کے لائسنسز معطل کر کے ان کی نشریات کو روک دیا گیا جب کہ کچھ ٹی وی چینلز کو آخری نمبروں پر منتقل کر دیا گیا.
.
پیمرا کی جانب سے 20 ستمبر کو ہونے والی پی ڈی ایم ریلی/ جلسے کے دوران نشریات کو روک دیا گیا بعدازاں پیمرا نے مفرور ملزمان کی تقاریر، مختلف سیاسی رہنماؤں کے انٹرویوز اور عوامی خطابات کی نشریات کو غیر قانونی قرار دے کر مکمل طور پر پابندی عائد کر دی۔ ایک اور واقعے میں خواتین کے عالمی دن کی رپورٹنگ کے حوالے سے پیمرا نے تمام الیکٹرانک میڈیا ہاؤسز کو خصوصی ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ 8مارچ کو ہونے والی عورت مارچ کی کوریج کے دوران نعرے، پلے کارڈ اور تقاریر نشر نہ کئے جائیں۔
.
روایتی میڈیا کو قابو کرنے کے ساتھ ساتھ ویب ٹی وی اور اوور دی ٹاپ (او ٹی ٹی) مواد کی ترسیل اور تشہیر کے مختلف قواعد و ضوابط کے ذریعے نئے میڈیا (سوشل میڈیا) کو بھی کنٹرول کرنے کے لئے کوششیں کی گئیں ان اقدامات کی وجہ سے ملک میں موجود سوشل میڈیا کمپنیوں نے پاکستان چھوڑنے کے ارادے کا اظہار کیا کیونکہ اس سے آن لائن میڈیا پر قدغنوں سے آزادی اظہار رائے کی صورتحال سنگین ہو گئی.
.
18 نومبر کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت نے سوشل میڈیا کے ”غیر قانونی آن لائن مواد کو ختم کرنے اور مسدود کرنے (ضابطے، نگانی اور حفاظتی اقدامات) کے قواعد 2020ء ” کے عنوان سے قانون تشکیل دیا جس کے خلاف 18دسمبر کو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تاہم اس قانون کے نفاذ کے بعد حکومت کو ڈیجیٹل مواد پر پابندی جاری رکھنے کا قانونی اختیار مل گیا ہے
.
کووڈ -١٩: پاکستانی میڈیا کیلئے چیلنج
.
وبائی مرض کورونا وائرس کے باعث پاکستان سمیت دنیا بھر میں دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح پاکستانی میڈیا پر بھی اس وباء کے براہ راست اثرات ہوئے جس کے سبب میڈیا کارکنوں کو بھی سنگین مالی و معاشی مسائل اور زندگی کے خطرات درپیش رہے۔
.
پورٹنگ اور نیوز کوریج کے دوران صحافیوںاور کیمرہ مین و دیگر افراد بھی اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے اس وبا کا شکار ہوئے جن میں 8 صحافی اس مہلک وباء کے خلاف جنگ لڑتے لڑتے زندگی کی بازی بھی ہار گئے۔
.
علاوہ ازیں کورونا وائرس سے بچاؤ کی خاطر لاک ڈاؤن کے سبب معاشی مسائل کا بھی میڈیا کارکنوں اور میڈیا اداروں کو سامنا کرنا پڑا۔
.
میڈیا اداروں کو درپیش مالی بحران تو کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے بل بھی موجود تھا لیکن COVID-19 کی صورتحال کی وجہ سے یہ پہلے سے کہیں زیادہ سنگین ہو چکا ہے۔ میڈیا ہاؤسز یا ان کے مختلف اسٹیشنوں کی راتوں رات بندش کی وجہ سے ہزاروں صحافی اور میڈیا کارکن بے روزگار ہو گئے۔
.
میڈیا کارکن تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے سبب معاشی دباؤ برداشت نہ کر سکے اور زندگی کی بازی ہار گئے، ان میں کیپٹل ٹی وی سے وابستہ ایک کیمرہ مین فیاض علی تھا جو بغیر تنخواہ کے نوکری سے نکالے جانے پر شدید صدمہ کے باعث حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کر گیا، فیاض علی 10ماہ سے بغیر تنخواہ کام کر رہا تھا، جبکہ دوسرا بول نیوز کراچی ہیڈ آفس میں بطور ایسوسی ایٹ پروڈیوسر کام کرنے والا نوجوان معاذ اختر تھا جس نے تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور گھریلو مسائل سے آکر 5 نومبر 2020ء کو خودکشی کر لی