جنوری / ١٨/ ٢٠٢١
بیورو رپورٹ
لاہور
لاہور کی ایک مقامی عدالت نے پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے خلاف نفرت انگیز تقریر کرنے کی دفعہ کے تحت مقدمہ درج کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مینار پاکستان پر کی گئی تقریر نفرت انگیزی کی بجاۓ قومی ہم آہنگی کو فروغ دینے کی کوشش تھی
ایک مقامی وکیل تنویر ارشد چودھری کی جانب سے اندراج مقدمہ کی درخواست میں یہ موقف اپنایا گیا تھا کہ دسمبر میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے محمود خان اچکزئی نے لاہور میں رہنے والے افراد کے خلاف گفتگو کی جس کی وجہ سے لاہوریوں اور پشتو بولنے والے افراد کے مابین نفرت اور دشمنی کو ہوا ملی.
درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ لاہور پولیس کو محمود خان اچکزئی کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 153-A کے تحت ایف آی آر درج کرنے کا حکم دے.
سیکشن 153-A مختلف گروہوں کے مابین دشمنی کو فروغ دینے سے متعلق ہے اور یہ بیان کرتا ہے کہ کسی بھی شخض کی جانب سے بول کر یا تحریر یا کسی اور طریقے سے مختلف گروہوں کے درمیان مذہب ، نسل ، مقام پیدائش ، رہائش ، زبان ، ذات یا برادری یا کسی بھی دوسری وجوہات کی بنا پر عداوت یا عداوت کا احساس اجاگر کرنا قابل سزا جرم ہے جس کی سزا پانچ سال تک قید اور جرمانہ ہے.
ایڈیشنل سیشن جج لاہور حافظ رضوان عزیز نے درخواست خارج کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں یہ قرار دیا کہ محمود خان اچکزئی کی جانب سے کی گئی تقریر کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کوئی ایسی بات نہیں کی تھی جو نفرت انگیزی کے زمرے میں آتی ہو بلکہ وہ تو اپنی تقریر کے ذریعے پاکستان میں رہنے والے مختلف گروہوں کے مابین ہم آہنگی اور بھائی چارے کو فروغ کی ایک کوشش کر رہے تھے.
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ محمود خان اچکزئی نے اپنی تقریر میں یہ کہا تھا کہ اگر پاکستان کی عوام متحد نہیں ہوں گئے تو بیرونی طاقتیں پاکستان کو تقسیم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی اور مزید یہ کہ اپنی تقریر کا اختتام “پاکستان زندہ باد، پشتون بلوچ ، سندھی ، پنجابی سب زندہ باد. آپ زندہ باد لاہور زندہ باد” کے نعروں سے کیا.
” تاریخی سچائیوں کی تلاش آزادی اظہار رائے کا لازمی جزو ہے” عدالت
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ تاریخی سچائیوں کی تلاش آزادی اظہار رائے کا لازمی جزو ہے ، اور مزید کہا کہ تاریخی امور یا بحث و مباحثے اور تشریحات میں ثالثی کرنے میں عدالت کا کوئی کردار نہیں ہوتا.
عدالت نے فیصلے میں اس بات کا ذکر بھی کیا کہ لاہور کی عوام سے چند شکایات کرنے سے پہلے محمود خان اچکزئی نے کئی مرتبہ معافی مانگی اور ان وجوہات کے خاتمے پر زور دیا جن کے باعث مختلف گروہوں میں کدورتیں بڑھتی ہیں.
معاملے کے قانونی پہلوں پر فیصلہ دیتے ہوۓ جج حافظ رضوان نے یہ قرار دیا کہ نفرت انگیز تقریر ریاست کے خلاف جرم ہوتا ہے اور ایسے معاملے میں پراسیکیوشن کا اختیار صرف ریاست کے پاس ہی ہوتا ہے اور کوئی عام شخض اس حوالے سے کاروائی کرنے کا مجاز نہیں ہے اور مجموعہ ضابطہ فوجداری کی سیکشن 196 کے تحت تعزیرات پاکستان کی دفعہ 153-A کے تحت ایف آی آر درج کرانے کا اختیار وفاقی یا صوبائی حکومتوں کو حاصل ہے.
محمود خان اچکزئی کی جانب سے دسمبر میں کی گی تقریر کے بعد حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے کئی رہنماؤں اور وزراء کی جانب سے شدیدمذمت کی گی اور ان کی تقریر کو لاہور تاریخی حقائق مسخ کرنے اور لاہور کی عوام کے خلاف ایک سازش قرار دیا تھا.