دسمبر ٦ ٢٠٢٠

تحریر: احمد سعید اور حامد ریاض


لاہور

اگر گوگل میپ سے لاہور شہر کو دیکھا جاے تو یہ ایک کنکریٹ کا جنگل نظر آتا ہے ماسواۓ دریاے راوی کے دونوں اطراف جہاں اب بھی کھیت کھلیان اور سبزہ موجود ہے مگر شاید کچھ ہی سال بعد لاہوری اس سبز خطے سے بھی محروم ہو جائیں اور ان لہلا تے کھیتوں کی جگہ بلند و بالا عمارتیں سے بھرا ایک نیا شہر آباد ہو جاے گا جس میں دنیا جہاں کی ہر نعمت میسر ہوگی یا کم از کم تحریک انصاف کی حکومت کا نئے شہر سے متعلق خواب کچھ ایسے ہی ہیں.

لیکن اس خواب کی تعبیر کے لئے حکومت کو رفیہ مقصود کے ارمانوں سے بناے گئے گھر اور اس سے جڑے ان کے خوابوں کو روندنا پڑے گا کیوں کہ رفیہ کا چار مرلے کا مکان اس علاقے میں موجود ہے جہاں پر پنجاب حکومت راوی ریور فرنٹ اربن ڈویلپمنٹ پروجیکٹ کے نام سے نیا شہر بسانے کا ارادہ رکھتی ہے.

رفیہ کی دو بیٹیاں نابینا ہیں اوروہ ہر کام کے لئے اپنی ماں کی مدد کی محتاج ہیں. اپنی ان بیٹیوں کو زمانے کے سرد اور گرم سے محفوظ رکھنے کے لئے رفیہ نے کئی سالوں تک لوگوں کے گھروں میں برتن صاف کر کے اور ایک ایک پائی جوڑ کے تین کمروں کا یہ چھوٹا سا آشیانہ تممیر کیا تھا.

وائس پی کے سے بات کرتے ہوئے رفیہ کا کہنا تھا اگر حکومت نے انھیں اس گھر سے نکال دیا تو پھر پورے لاہور میں ان کے پاس سر چھپانے کے لئے چار فٹ جگہ بھی نہیں ہوگی. انھیں اپنے سے بھی زیادہ فکر اپنی آنکھوں سے معذور بیٹیوں کے آرام کی ہے.

“ہم نے لوگوں کے برتن صاف کر کے، صبح سے لے کر شام تک مشین چلا کر یہ چار مرلے کا گھر بنایا ہے، اگر حکومت یہ بھی ہم سے چھین لے گی تو میں اپنی معذور بیٹیاں لے کر کہاں جاؤ گی. ہمارے پاس ایک وقت کی روٹی ہوتی ہے ایک وقت کی نہیں ہوتی. “

اس پریشانی میں رفیہ صرف اکیلی مبتلا نہیں ہیں بلکہ راوی کنارے آباد دیہاتوں میں رہنے اور کاشت کاری کرنے والے ہزاروں افراد اب دن رات اس ہی شش و پنج میں گزار رہے ہیں کہ کب حکومتی اہلکار آ کر انھیں ان کی زمینوں اور مکانوں سے نکال باہر کریں گئے

زمین حاصل کرنے کا قانون منظور

راوی کنارے نیا شہر بنانے کا منصوبہ سب سے پہلے ٢٠٠٤ میں مسلم لیگ ق کی حکومت نے دیکھا تھا، جبکہ مسلم لیگ نون کی حکومت بھی اس منصوبے پر عمل کرنا چاہتی تھی مگر وسائل کی کمی اور مقامی لوگوں کے احتجاج کے باعث یہ دونوں حکومتیں اس پر کوئی بڑی پیش رفت نہ کر سکی.اس منصوبے کے اہم خد و خال کے مطابق راوی کی موجودہ گزرگاہ کو پختہ کر کے اس کے ارد گرد چھالیس کلومیٹر کی پٹی پر ایک انتہائی جدید شہر بسایا جاے گا.

ماضی کی نسبت تحریک انصاف کی حکومت اس منصوبے کو مکمل کرنے میں کافی زیادہ دلچسپی دکھا رہی ہے اور شاید اسی لئے مقامی لوگوں کی پریشانی بھی دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے. اس شدید پریشانی کی وجہ پنجاب اسیمبلی سے پاس کردہ راوی اربن اتھارٹی بل ہے جس کے تحت اتھارٹی کو کسی بھی شخص جس کی زمین اس پروجیکٹ کی زد میں آتی ہو، کو مختصر سماعت کے بعد اس زمین سے بیدخل کرنے کا اختیار حاصل ہے.بل کے مطابق اتھارٹی کی جانب سے اٹھاۓ گئے اقدامات کو کسی بھی عدالت میں چیلنج بھی نہیں کیا جا سکے گا.

راوی کی صفائی شہر بسنے سے منسلک 

راوی جو کبھی ایک زندہ دریا ہوتا تھا، ١٩٦٠ میں کیے گئے سندھ طاس معاہدے کے بعد اب سکڑ کر گندے نالے کی شکل اختیار کر چکا ہے، جس کے مقدر میں اب لاہور بھر کے سیورج کا گندا پانی ہی رہ گیا ہے.

حکومت کے مطابق اس منصوبے سے دریاے راوی، جس کا رنگ اب لاہور شہر کے سیو رج کے پانی کی وجہ سے کالا ہو چکا ہے، کو صاف کرنے میں بھی مدد ملے گی.اس مقصد کے لئے نئے بساۓ جانے والے شہر میں حکومت کئی واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس لگاے گی.

منصوبے کی تکمیل کی لاگت محتاط اندازے کے مطابق پانچ ہزار ارب روپے سے زیادہ کی ہے اور یہ اگلے تیس سالوں میں تین مرا حل میں مکمل ہوگا- اس کے لئے مطلوبہ زمین پنجاب حکومت خریدے گی جب کہ نئے شہر کی تعمیر کے لئے ملکی اور غیر ملکی کمپنیز سرمایا کاری کریں گی

وزیر اعظم عمران خان اس منصو بے میں ذاتی دلچسپی لے رہے ہیں کیوں کہ ان کے خیال میں اس سے ملک میں کثیر سرمایا کاری ہوگی، جس سے پاکستان کی معشیت اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جاے گی.

شہری منصوبہ ساز فوزیہ قریشی کے مطابق مجوزہ پلان کے مطابق حکومت کو منصوبے پر عملدرآمد کے لئے ایک لاکھ ایکڑ جگہ درکار ہے جس میں سے زیادہ تر رقبہ پرائیویٹ لوگوں کی ملکیت ہے. ان کا کہنا تھا حکومت کو راوی کنارے نیا شہر بسانے کی بجاۓ لاہور کو عمودی طور پر بڑھانا چاہئے اور ہائی رائز عمارتیں تعمیر کرنے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے.

ماضی میں وزیر اعظم عمران خان بھی اس بات کا اقرار کر چکے ہیں کہ پاکستان ماحولیاتی خطرے سے دو چار ہے اور پاکستان کو اپنے سبزے کو بچانے کے لئے شہروں کو پھیلانے کی بجاۓ بلند عمارتیں تعمیر کرنی چاہئے

فوزیہ قریشی کے مطابق مجوزہ پلان کے تحت نیا شہر آباد کرنے کے لئے ایک لاکھ ایکڑ زمین، جس میں سے ہزاروں ایکڑ قابل کاشت رقبہ ہے، ختم ہو واگزار کرانا ہوگی جس سے لاکھوں لوگوں کا ذریعہ معاش خطرے میں پڑ جاے گا.

“جان دے دیں گئے مگر زمین نہیں دیں گئے”

چودھری عبدلحمید بھی ان زمینداروں میں سے ایک ہیں جن کی کئی ایکڑ زمین اس منصوبے کی نذر ہو جاے گی. ان کا کہنا ہے کہ یہ زمین ان کے لئے انکی زندگی کی ماند ہے اس لئے وہ مر تو سکتے ہیں مگر یہ زمین کسی قیمت پر بھی چھوڑ نہیں سکتے

” یہاں ایک ایک ایکڑ زمین پر چالیس چالیس لوگوں کا روزگار وابستہ ہے. ایک کلومیٹر دور منڈی ہے لوگ یہاں سے سال میں چار فصلیں کاشت کر لیتے ہیں. حکومت ہم سے زمین لے کر بڑے انویسٹرز کو دینا چاہتی ہے مگر ہم مر جائیں گئے اپنی جان دے دیں گئے، مگر کسی کو ایک مرلہ زمین بھی نہیں دیں گے. وہ بلڈوزر لے کے آنا چاہتے ہیں تو آ جائیں ہم لڑیں گئے، خانہ جنگی ہو جا ے گی یہاں اور ایسا لگے گا کہ یہاں پاکستان اور انڈیا کی جنگ ہوئی تھی.”

عبدلحمید کا مزید کہنا ہے کہ راوی کنارے موجود زرعی رقبہ پورے لاہور شہر کی خوراک اور دودھ کی ضروریات پوری کرتا ہے اور اگر حکومت نے یہاں پر بھی شہر بسا دیا تو لوگ تازہ سبزی اور خالص دودھ سے بھی محروم ہو جائیں گئے

” یہ ایک چھوٹا سا خطہ ہی تو رہ گیا ہے جہاں پر ہریالی ہے ورنہ لاہور سے لے کر شیخوپورہ، قصور اور فیصل آباد تک تو آبادی بن گی ہے. صرف ایک یہ ہی تو علاقہ بچا ہے جس سے لوگوں تو تازہ سبزی اور خالص دودھ ملتا ہے، یہ سب بھی ختم کر دیا تو لوگ کیمکل کا دودھ پی کر کینسر اور دیگر بیماریوں کا شکار ہون گے”

صرف بڑے زمیندار ہی نہیں بلکہ ان زمینوں پر کام کرنے والے مزارعے بھی زرعی زمینیں راوی پروجیکٹ میں آنے کی خبروں کے بعد سخت اضطراب کا شکار ہیں. چودھری عبدلحمید کے کھیتوں میں کام کرنے والے ملک ریاض کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے یہاں پر کاشت کاری بند کروا دی تو وہ سڑکوں پر رہنے پر مجبور ہو جائیں گئے

” کافی زیادہ لوگوں کا روزگار ان زمینوں سے منسلک ہے، لوگ ادھر کام کر کے پانچ سو یا ہزار روپے کی دیہا ڑ ی لگاتے ہیں اگر یہ کام ختم ہو گیا ہم پر بہت بڑا عذاب آ جا ے گا، ہم لوگ سڑکوں پر آ جائیں گئے، اگر حکومت ہم سے ہماری زمین چھین لے گی تو ہم کہاں جائیں گئے. اور اگر ایسا ہوا تو ہم حکومت کو کہیں گئے کہ پہلے ہمیں مارو پھر بے شک زمین لے لو”

اس تمام صورتحال پر جب وائس پی کے ڈاٹ نیٹ نے نو تشکیل شدہ راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے رجو ع کیا تو انکا مؤقف تھا ابھی منصوبہ پلاننگ اسٹیج پر ہے اور بیدخلی سے متعلق خدشات بے بنیاد ہیں اتھارٹی کے ترجمان کے مطابق کسی بھی شخص کو بے گھر نہیں کیا جا ے گا اور جو زمین بھی حاصل کی جاے گی اس کا مناسب معاوضہ یا متبادل جگہ فراہم کی جا ے گی. ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ اس منصوبے کا ایک اہم مقصد راوی کو صاف کرنا اورلاہور شہر کی زیر زمین پانی کی سطح کو بلند کرنا بھی ہے.

تاہم ان علاقوں میں پراپرٹی کی خرید و فروخت کرنے والے محمّد عابد کا کہنا تھا کہ مقامی لوگوں کو جھیل بنانے یا راوی صاف کرنے سے کوئی مسلہ نہیں ہے مگر دراصل حکومت راوی کی صفائی کی آڑ میں یہ زمین لوگوں سے اونے پونے دام خرید کر بڑے سرمایہ کارروں کے حوالے کرنا چاہتی ہے

راوی کی صفائی نیا شہر بساے بغیر بھی ممکن

دریاۓ راوی کی موجودہ شکل کسی کے لئے بھی قابل قبول نہیں مگر اس کی بحالی کے طریقے کار پر حکومت، مکینوں اور ماہرین کی رائے میں شدید تضاد پایا جاتا ہے- ماہر ماحولیات اور ایشین ڈیولپمنت بینک کی جانب سے دریاے راوی کی از سر نو بحالی کے منصوبے پر کام کرنے والے وقار زکریا کا کہنا ہے کہ راوی کو صاف کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دریا میں گرنے والے تمام گندے نالے صاف کرنا ضروری ہیں.

ان کا مزید کہنا تھا راوی کو صاف کرنے کے ٹریٹمنٹ پلانٹس لگانے کا منصوبہ بہت زیادہ مہنگا ہوگا. انہوں نے تجویز دی کہ سیورج ویسٹ کو دریا کے ارد گرد ویٹ لینڈز بنا کے صاف کیا جا سکتا ہے جب کہ انڈسٹریل ویسٹ کی صفائی کے لئے حکومت صنعت کاروں پر سختی کرے کہ وہ اپنا گندا پانی صاف کر کے ہی راوی میں پھینک سکتے ہیں .انکا مزید کہنا تھا کہ دریا کی بحالی صرف پانی کی صفائی نہیں ہوتی بلکہ اس سے مراد دریا کے پورے ایکو سسٹم کی قدرتی حالت میں بحالی ہے