وفاقی وزارت انسانی حقوق کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان کی جیلوں میں قید بہت سے قیدی اپنی زیادہ عمر اور خرابی صحت کی وجہ سے کورونا وائرس کا شکار ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں.
عالمی ادارہ یونائیٹڈ نیشنز ڈویلپمنٹ پروگرام کے اشتراک سے جاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان بھر کی جیلوں میں گنجائش سے ١٣٤ فیصد زیادہ لوگوں کو قید میں رکھا گیا ہے. اس وقت پاکستان کی تمام جیلوں میں 77,725 افراد قید ہیں جب کہ قانونی طور پر وہاں صرف 57,742 لوگوں کو قید کیا جا سکتا ہے.
پنجاب کے جیلوں کی خراب صورتحال
اس حوالے سے سب سے زیادہ سنگین صورتحال پنجاب کی جیلوں کی ہے جہاں 43 جیلوں میںتقریباً 54 ہزار افراد قید ہیں جب کہ گنجائش صرف 36 ہزار قیدیوں کی ہے.
رپورٹ کے مطابق قید میں موجود زیادہ تر افراد زیر سماعت ملزمان ہیں جب کہ صرف چند ہزار لوگ ہی ایسے ہیں جن کو عدالت سے سزا ہو چکی ہے.
اس تمام صورتحال کو کورونا کی وبا کے پیش نظر انتہائی تشویشناک قرار دیا ہے.
رپورٹ میں جان ہوپکنس یونیورسٹی کی ایک اسٹڈی کا حوالہ دیا گیا ہے جس کے مطابق جیلوں میں قید افراد کے کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کے چانسز 5.5 اور اس سے ہلاک ہونے کے چا نسز 3.5 گنا زیادہ ہوتے ہیں.
جیلوں میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خدشے کے مدنظر اسلام آباد ہائی کورٹ نے مارچ میں تمام زیر سماعت قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا تاہم بعد ازاں نے سپریم کورٹ نے اس آرڈر کو کالعدم قرار دیتے ہوئے قیدیوں کی رہائی کے لئے اپنی ہدایات جاری کی تھی.
رپورٹ کے مطابق پاکستان کی جیلوں میں میڈیکل آفیسرز کی 193 آسامیاں موجود ہیں لیکن ان میں سے 108 خالی پڑی ہیں اور ڈاکٹروں کی یہ کمی اور ناکافی طبی سہولیات صورتحال کو مزید خطرناک بنا دیتی ہے.
اس وقت پاکستان کی جیلوں میں تقریباً 1500 قیدیوں جن میں 46 خواتین بھی شامل ہیں، کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہے جس کی وجہ سے ان کے لئے حالات زیادہ سنگین ہو سکتے ہیں.
روبینہ شاہین جو کہ عاصمہ جہانگیر لیگل ایڈ سیل میں وومن پروٹکشن افسر ہیں اور عرصہ 26 سال پنجاب کی مختلف جیلوں کے دورے کر رہی ہیں کا کہنا ہے کہ پنجاب کی جیلوں میں حالات بہتر ہو رہے ہیں مگر صورتحال پھر بھی تسلی بخش نہیں ہے.
ان کا مزید کہنا تھا پنجاب کی اکثر جیلوں میں لیڈی ڈاکٹرز اور ماہر نفسیات موجود ہوتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر قیدیوں کو جیل میں موجود ہسپتال میں بھی منتقل کر دیا جاتا ہے. تاہم ان کے مطابق جیلوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے قیدیوں کی ضروریات پوری کرنا ممکن نہیں ہو پا رہا کیوں کہ حکومت قیدیوں کے لئے چیزیں اور انفرا سٹکچر تو بہرحال منظور شدہ آبادی کے مطابق ہی فراہم کرتی ہے.
وہ سمجھتی ہیں کہ جیلوں کی حالت زار بہتر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ جیلوں میں سے رش کا خاتمہ کیا جاے کیوں کہ اسکے بغیر کوئی بھی اصلاح بے معنی ہو گی.
بہتری کے لئے تجاویز
رپورٹ نے حکومت پاکستان کو جیلوں کی صورتحال کو بہتر بنانے اور بلخصوص طبی سہولیات کی فراہمی کے لئے بعض تجاویز بھی فراہم کی ہیں.
حکومت 108 خالی آسامیوں پر فوری طور پر میڈیکل افسرز اور اسٹاف کو بھرتی کرے اور قیدیوں کے میڈیکل ریکارڈ کو مناسب انداز میں رکھا جاے.
جیلوں میں قید افراد میں سے چھ سو قیدی ذہنی امراض کا شکار ہیں، اس طرح کے افراد کی دماغی صحت کے علاج کے لئے لازمی سہولیات مہیا کی جائیں.
حاملہ خواتین کی صحت کا خیال رکھا جاے اور بچے کی پیدائش کے لئے حفظان صحت کے اصولوں کو یقینی بنایا جاے.
جیلوں میں روش کوکم کرنے کے لئے اقدامات کے جائیں اور نئے آنے والے قیدیوں کو چودہ روز کے لئے قرنطینہ میں رکھ جاے.