نومبر ١٩ ٢٠٢٠

تحریر: احمد سعید


لاہور

پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما اور ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ  نے اپنی  پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ سے بے دخلی کی خبروں سے متعلق لا علمی کا اظہار کیاہے.

وائس پی کے ڈاٹ نیٹ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے محسن داوڑ کا کہنا تھا انھیں اس بارے میں صرف اخبارات میں شائع شدہ خبروں سے ہی معلوم ہوا ہےمگر  پی ڈی ایم یا مولانا فضل الرحمان کی جانب سے انھیں با ضابطہ طور پر اپوزیشن کے اتحاد کے  اجلاسوں میں شریک ہونے سے منع نہیں کیا گیا.

  تاہم انہوں نے مطالبہ کیا کہ پی ڈی ایم  اس خبر سے متعلق وضاحت ضرور کرے اور ان کی پی ڈی ایم کے اگلے اجلاس یا جلسوں میں شمولیت پی ڈی ایم کی جانب سے جاری کردہ وضاحت سے ہی مشروط ہوگی.

 اس حوالے سے جب ہم نے  جے یو آی ف کے رہنما اور مولانا فضل الرحمان کے بھائی سینیٹر عطا الرحمان سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ پشتون تحفظ موومنٹ  تو کبھی پی ڈی ایم کے گیارہ جماعتی اتحاد کا با ضابطہ طور پر حصہ ہی نہیں رہی کیوں کہ پی ٹی ایم بطور سیاسی جماعت الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہی نہیں ہے.

سینیٹر  عطا الرحمان کا کہنا تھا کہ جب کوئی شخض یا جماعت کسی چیز میں شامل ہی نہیں ہے تو اس کو نکالنے کا سوال کہاں سے پیدا ہو گیا. ان کا مزید کہنا تھا کہ آج تک محسن داوڑ نے  ہمیشہ ذاتی حثیت میں ہی پی ڈی ایم کے اجلاسوں میں شرکت کی اور اس کا اقرار وہ خود بھی کئی مواقعوں  پر کر چکے ہیں.

اس حوالے سے محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ بیس ستمبر کو اسلام آباد میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس، جس میں پی ڈی ایم بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، میں شرکت چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی دعوت پر کی تھی.

  یاد رہے کہ پی ڈی ایم نے اپنا  پہلا  جلسہ سولہ اکتوبر کو گوجرانوالہ میں کیا تھا جس کی میزبانی پاکستان مسلم لیگ نون نے کی تھی مگر اس میں محسن داوڑ کو شرکت کی دعوت نہیں دی گی تھی لیکن دو دن بعد پیپلز پارٹی کی میزبانی میں کراچی میں ہونے والے جلسے میں محسن داوڑ شریک ہوئے تھے.

پی ٹی ایم کے بطور سیاسی جماعت رجسٹرڈ نہ ہونے کے حوالے سے اٹھاۓ جانے والے اعتراضات پر محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ اس طرح کی باتیں کر کے انھیں کسی بھی سیاسی اتحاد سے دور رکھنا منطقی طور پر غلط ہوگا کیوں کہ ملک میں تو تین سو سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں پھر تو سب کو دعوت دی جانی چاہئے تھی.

محسن داوڑ  نے وضاحت کی کہ پی ڈی ایم دراصل ملک میں متحرک اپوزیشن جماعتوں کا اکٹھ ہے اور موجودہ حکومت کی سب  سے زیادہ اور اصل مخالفت توان کے اور علی وزیر کے علاوہ کسی نے نہیں کی