نومبر ١٩ ٢٠٢٠
تحریر: بصیر قلندر
پشاور
مشال قتل کیس میں انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلوں کے خلاف دائر اپیلوں پر پشاور ہائی کورٹ نے محفوظ فیصلہ سنا دیا۔ پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس لعل جان خٹک اور جسٹس عتیق شاہ پر مشتمل بینچ نے محفوظ فیصلہ سنایا جس میں مشال قتل کیس کے مرکزی ملزم عمران علی کی پھانسی کی سزاء کو عمر قید جبکہ ضمانت پر رہا ہونے والے ملزموں کو دوبارہ گرفتار کرنے کا حکم دیدیا۔
یاد رہے کہ 7 فروری 2018 کو انسداد دہشت گردی عدالت نے مقدمے میں 60 کے قریب ملزموں میں سے 31 مشتبہ افراد کو مجرم قرار دیا تھا، جس میں واقعہ کے مرکزی ملزم عمران علی کو سزائے موت اور پانچ دیگر ملزموں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی جبکہ 25 دیگر افراد کو تین سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ خیبر پختونخوا حکومت اور مشال کے والد نے واقعہ میں ملوث مجرموں کی سزاوں کو ناکافی قرار دیتے ہوئے سزاوں کے خلاف اپیلیں دائر کی تھیں۔ تاہم ان اپیلیں پر سماعت مکمل ہونے کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جس کو آج ( جمعرات) کے روز دو رکنی بینچ نے سنایا جس پر مشال کے والد اقبال لالا نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ فیصلے سے مطمین نہیں تاہم وہ اس فیصلے کو چلینج کرنے کا قانون حق محفوظ رکھتے ہیں اور اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چلینج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اقبال لالا نے وائس پی کے ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ پہلے دن سے یہی موقف رہا ہے کہ مشال خان واپس نہیں آسکتے لیکن جس بے دردی سے ان کے بیٹے کو قتل کیا گیا وہ نہیں چاہتے کہ دیگر مشال بھی اس لاقانونیت کا شکار بنے۔ مشال خان کے والد کا کہنا تھا کہ میں اس ملک میں انصاف کے لئے جدو جہد کررہا ہوں۔ اقبال لالا کا کہنا ہے قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے مشال خان کے قاتل کی پھانسی کی سزاء ختم کرنے کے خلاف سپریم کورٹ جائینگے۔ ان کا کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی کی جانب سے مجرموں کو سزاوں میں نرمی کے خلاف انہوں نے پشاور ہائی کورٹ میں اپیلں دائر کی تھیں لیکن ان کو انصاف نہیں ملی۔ ججز کی سنایا گیا فیصلہ پر وہ کچھ نہیں کہ سکتے تاہم فیصلہ کے خلاف وہ سپریم کورٹ میں جلد اپیلیں دائر کرینگے۔
یاد رہے کہ عبد الولی خان یونیورسٹی مردان کے شعبہ صحافت کے طالب علم 23 سالہ مشال خان، مبینہ طور پر”توہین آمیز مواد آن لائن شائع کرنے” کے الزام پر ہجوم نے قتل کردیا تھا۔ یہ واقعہ یونیورسٹی کے احاطے میں ہوا ہے۔ واقعے کے بعد کیمپس کو غیر معینہ مدت تک بند کردیا گیا تھا اور تشدد کے مزید بڑھ جانے سے بچنے کے لئے ہاسٹل خالی کرائے گئے تھے۔