نومبر ٢١ ٢٠٢٠

بیورو رپورٹ


لاہور

پنجاب کے ضلع ننکانہ صاحب کے علاقے مڑھ بلوچاں میں ایک گھر پر اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں اکتیس سالہ احمدی ڈاکٹر طاہر احمد ہلاک جب کہ مقتول کے والد طارق محمود سمیت دیگر دو احمدی افراد زخمی ہو گئے جو کہ ابھی ہسپتال میں زیر علاج ہیں. طارق محمود کی حالت سر پر لگنے والی گولی کے باعث تشویشناک ہے.

جماعت احمدیہ کی جانب سے جاری ہونے والی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ حملے کا نشانہ بننے والے افراد گھر کے اندر جمعہ کی عبادت کے بعد باہر نکل رہے تھےکہ حملہ آور شخض نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی.

واضح رہے کہ ننکانہ صاحب پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ کا آبائی علاقہ ہے. پولیس کے مطابق حملہ آور جس کی عمر تقریباً پندرہ برس ہے کو گرفتار کر کہ واقعہ کی ایف آی آر درج کر لی ہے. پولیس ذارئع نے وائس پی کے کو بتایا کہ گرفتار ملزم مقتول کا محلے دار تھا اور اس نے اپنے ابتدائی بیان میں یہ کہا ہے کہ ” ہر جمعے کو احمدی افراد اس گھرمیں جمع ہو کر عبادت کرتے تھے اور اس وجہ سے میرے مذہبی جذبات مجروح ہو تے تھے تو میں طیش میں آ کر ان کو مار ڈالا”.

جماعت احمدیہ کے ترجمان سلیم الدین نے اس افسوسناک واقعہ پر گہر ے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے شدید مذمت کی ہے۔انہوں نے کہا کہ احمدیوں کے خلاف ایک طویل عرصہ سے نفرت انگیز مہم جاری ہے.

عقیدے کے اختلاف کی بنا پر اس سال پنجاب میں دو جب کہ ملک بھر میں پانچ احمدیوں کو قتل کیا جا چکا ہے.

جماعت احمدیہ کے پریس سیکشن کے انچارچ عامر محمود نے وائس پی کے کو بتایا کہ جولائی میں پشاور کی ایک عدالت کے اندر توہین رسالت کے مبینہ ملزم طاہر نسیم کے قتل کے بعد احمدی برداری سے تعلق رکھنے والے افراد اور انکی املاک پر حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے.

اگست کے مہینے میں ایک احمدی تاجر معراج احمد کو نا معلوم افراد نے گولیاں مار کے قتل کر دیا تھا جب کہ اکتوبر کے مہینے میں ایک پشاور کے ایک مقامی کالج میں ایک احمدی پروفیسر کو ساتھ پروفیسر نے ایک جھگڑے کے بعد گولیاں مار کر مار دیا تھا.

آٹھ نومبر کو بیاسی سالہ احمدی شخض محبوب احمد کو نا معلوم افراد نے ان کے عقیدے کی بنا پر قتل کر دیا تھا.

اس حوالے سے عامر محمود کا کہنا تھا کہ ان تمام افراد کے قتل میں ملوث افراد کے زیادہ تر ملزمان کو پولیس گرفتار کرنے میں ناکام رہی ہے.

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر حکومت اور انتظامیہ احمدی افراد کو تحفظ دینے اور ان پر حملہ کرنے والو کو پکڑنے میں سنجیدہ ہے تو سب سے پھلے ان افراد کو گرفتار کرے جو سرے عام احمدی برداری کے خلاف جلسے جلوس کرتے ہیں اور لوگوں کو تشدد پر اکساتے ہیں.