نومبر/ ١/ ٢٠٢٠
تحریر: احمد سعید
فیصل آباد
فیصل آباد کی رہائشی دو سگی بہنوں کو تین خواتین سمیت پندرہ افراد نے مبینہ طور پر اغوا کر کے ایک ہفتے تک گینگ ریپ کا نشانہ بناتے رہےسترہ سالہ شازیہ (فرضی نام) اور چودہ سالہ ثانیہ (فرضی نام) کے ساتھ یہ واقعہ ستمبر کے مہینے میں پیش آیا تھا مگر اس کی ایف آی آر تقریباً ایک مہینے کے بعد درج کروای گی. متاثرہ لڑکیوں کے والد کے مطابق وہ تو فورا ہی ایف آی آر درج کروانا چاہتے تھے مگر ان کی بیٹیاں اپنے ساتھ ہونے والے واقعات اور ملزمان کی دھمکیوں سے اس حد تک خوف زدہ تھی کہ وہ پولیس کو بھی اس معاملے میں شامل نہیں کرنا چاہتی تھی
تفصیلات کے مطابق شازیہ اور ثانیہ اپنے والدین کے ساتھ ایک کراے کے مکان میں رہتی تھی، جب کہ اس مکان کے اوپری حصے میں ایک شخص علی اپنی بیوی رابعہ کے ساتھ رہائش پذیر تھا. شازیہ کے مطابق رابعہ نے اسے بارہا کچھ اجنبی لڑکوں سے دوستی کرنے اور شادی کرنا کا کہا. دونوں بہنوں نے رابعہ کو کہا کہ وہ شادی کے لئے ان کے والد سے بات کریں. شازیہ کے مطابق جب رابعہ نے ان کے والد سے رشتے کی بات کی تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے سختی سے انکار کر دیا کہ وہ اپنی بچیوں کی شادی مناسب وقت آنے پر خود کریں گئے. اس واقعے کے چند دن بعد ہی دونوں بہنوں کو ان کے گھر سے مبینہ طور پر اغوا کر لیا گیا تھا.
ایف آی آر کے مطابق اغوا کے بعد شازیہ کو تین افراد نے فیصل آباد جب کہ ثانیہ کو دو لوگوں نے گوجرانوالہ لے جا کر گینگ ریپ اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا. شازیہ اور ثانیہ کے مطابق ملزمان نے جنسی زیادتی کے عمل کی ویڈیوز اور تصاویر بھی بنایی تھی.
شازیہ کے مطابق اغوا کاروں نے اسے ایک کمرے میں بند کیے رکھا. “وہ مجھے کھانے کےلئے زیادہ نہیں دیتے تھے اور آ کر تشدد بھی کرتے تھے. تشدد اتنا زیادہ کیا گیا تھا کہ ابھی تک میرے جسم پر اس کے نشانات موجود ہیں.”
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک دن اغوا کاروں نے انھیں جوس میں نشہ آور چیز ملا کے پلایا اور پھر ان کو تین لوگوں نے باری باری جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا. شازیہ نے ایک دن موقع پا کر ملزمان کے فون سے اپنے گھر والوں کو اطلاع دی جنہوں نے ون فائیو کو فون کر کے شازیہ کو بازیاب کرا لیا، شازیہ کے گھر واپس آنے کے ایک دن بعد ہی مبینہ اغوا کاروں نے ثانیہ کو بھی فیصل آباد لا کر چھوڑ دیا
شازیہ کی والدہ کے مطابق جب انکی دونوں بیٹیاں گھر پہنچی تو وہ نشے کی حالت میں تھی اور دونوں کے پورے جسم پر جگہ جگہ تشدد کے واضح نشانات موجود تھے لڑکیوں کے والد کے مطابق ملزمان بااثر تھے اور انہوں نے لڑکیوں کو دھمکی دی تھی اگر انہوں نے پولیس کو معاملے میں شامل کیا تو وہ لڑکیوں کے اکلوتے بھائی کو بھی قتل کرا دیں گئے.
اسی ڈر کی وجہ سے لڑکیاں ہمیں پرچہ نہیں کروانے دیتی تھی کہ ہمارا ایک ہی بھائی ہے آپ پرچہ نہ درج کروانا ورنہ وہ بھائی کو مار دیں گئے. ملزمان جب بھی سامنے آتے تھے تو وہ ہمیں دھمکیاں دیتے تھے اس لئے ہم نے فیصلہ کیا کہ اگر ہم نے مرنا ہی ہے تو مر جائیں گئے مگر کم از کم انکو تو پتا چل جاے کہ ہم نے قانون کا سہارا لے لیا ہے
پولیس نے پہلے پہل تو مقدمے کے اندراج میں ٹال مٹول سے کام لیا مگر جب عدالت کے حکم سے لڑکیوں کا میڈیکل ٹیسٹ ہوا اور اس میں ان سے جنسی زیادتی اور تشدد کی تصدیق ہوگی تو پولیس نے اغوا اور ریپ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا مگر تمام مرکزی ملزمان نے اکتسس اکتوبر تک عبوری ضمانتیں کروا لی ہیں.
شازیہ کے مطابق کیس کی تفتیش کے دوران ایک ڈی ایس پی ان سے اس قدر بدتمیزی کی کہ وہاں پر موجود ایک سب انسپکٹر سے رہا نہ گیا اور اس نے مدا خلت کر کہ اپنے سینئر افسر کو لڑکیوں سے تضحیک آمیز انداز میں سوالات کرنے سے منع کرنا پڑا ڈی ایس پی نے یہاں تک الزام لگایا کہ شازیہ اور ثانیہ اپنی مرضی سے مردوں کے ساتھ گی تھی اور وہ اس جرم کے ثابت ہونے پر دونوں بہنوں کو سات سال کے لئے جیل میں ڈلوا دے گا
متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او علی احمد جپپہ سے بھی جب وائس پی کے نے اس کیس کی جاری تفتیش کر لئے رابطہ کیا تو انہوں نے بھی لڑکیوں کو اس تمام واقعے کا قصوروار قرار دیا اور یہ شبہ ظاہر کیا کہ وہ اپنی مرضی سے ملزمان کے ساتھ گی تھی. جب ہم نے سوال کیا کہ کہ ثانیہ کی عمر تو بے فارم کے مطابق صرف چودہ سال ہے اور سولہ سال سے کم عمر لڑکی سے ساتھ کسی بھی طرح کا جنسی فعل تو جرم ہی ہوتا ہے تو اس پر ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ وہ اس طرح کے بے فارم دس منٹ میں بنا سکتے ہیں
ایس ایچ او کا کہنا تھا اگر لڑکیاں یہ دعوی کرتی ہیں کہ ان کی غلط ویڈیوز بھی بنایی گی تھی تو پھر ان کو ویڈیوز پولیس کو بھی دینی چائے تھی. مگر جب وائس پی کے نے یہ بتایا کے ایف آی آر کے مطابق تو وہ ویڈیوز ملزمان کے موبائل فون میں موجود ہیں اور انکو تحویل میں لینا پولیس کی ذمے داری ہے تو ایس ایچ او نے کہا کہ فی الحال تو ملزمان ضمانت پر ہیں اور ضمانت ختم ہونے کے بعد ہی اس معاملے میں کچھ کر سکتے ہیں.
اپنے ساتھ ہونے والے واقعے پر متاثرہ بہنیں شدید ذہنی اضطراب کا شکار ہیں اور انکی والدہ پولیس کے عدم تعاون کی وجہ سے پریشان ہیں مگر وہ ہر حال میں اس مقدمے کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے تیار اور کسی بھی صورت میں ملزمان سے راضی نامہ نہ کرنے کا عزم رکھتی ہیں- “پیسے سے ہماری بیٹیوں کی عزت نہیں واپس آے گی. آپ خود سوچیں پیسے سے عزت واپس آتی ہے کسی کی، نہیں. میں یہ کام نہیں کروں گی کہ میں پیسے کی خاطر صلح کر لوں یا انھیں چور دوں ، نہیں میں تو یہ چاہتی ہوں کہ ان کو کڑی سے کڑی سزا ملے تاکے آیندہ کسی اور کی بیٹی کے ساتھ ایسا ظلم نہ ہو.
نوٹ: تعزیرات پاکستان کے تحت جنسی زیادتی سے متاثرہ شخص کی اصل شانخت کو ظاہر نہیں کیا جا سکتا اس لئے اس رپورٹ میں موجود متاثرہ شخصیات کے ناموں کو تبدیل کر دیا گیا ہے