اکتوبر/٢٠٢٠/٢٠
تحریر: حامد ریاض
لاہور
افغانستان میں عورتوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کے اکٹھ نے اکتوبر ٢١ بروز بدھ ایک اعلامیہ جاری کیا – اعلامیہ میں افغانستان میں جنگ بندی کی غرض سے افغان حکومت، امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے مزاکرات کو ایک خوشایند قدم قرار دیا گیا – لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ انتباہ بھی کی گئی کہ پچھلے کچھ عرصے میں افغان عورتوں، انسانی حقوق کے لئے جہد کرنے والے کارکنان، بچوں اور عام شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو کہ افغانستان میں دیر پہ امن کے قیام کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے – افغانستان میں امن صرف تب ہی ممکن ہے جب افغانستان کے تمام شہریوں کو بلا تفریک مساوی حقوق مہیا کیے جایئں –
اعلامیے میں افغان جنگ کو ایک علاقائی تنازعہ قرار دیتے ہوے خطّے کی تمام انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ افغانستان میں امن کے قیام اور انسانی حقوق کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں کیوں کہ اس طویل جنگ کے اثرات پورے خطّے میں محسوس کیے جا سکتے ہیں –
اعلامیے میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملہ، کابل میں زچہ بچہ ہسپتال پر حملہ، سرلنکا میں ایسٹر کے موقح پر چرچوں پر حملہ اور ممبئی پارلیمنٹ پر حملوں کا خصوصی طور پر حوالہ دے کر کہا گیا کہ انتہا پسندی کی آگ نے پورے خطّے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے- اس انتہا پسندی کے خلاف علاقے کی انسانی حقوق کی تنظیموں کو ایک مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دینے کی ضرورت ہے-
آخر میں خطّے میں عورتوں کے حقوق کی ابتر صورتحال پر روشنی ڈالی گئی اور یہ امید ظاہر کی گئی کہ اگر علاقے میں عورتوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کے خلاف آواز اٹھاننے والی تنظیمیں اپنی آوازوں کو یکجا کر لیں تو ان کی آواز کا اثر بڑھ جائے گا-