٢٠ ستمبر ٢٠٢٠
تحریر فرزانا علی
پشاور
کچھ عرصہ سے جنوبی وزیرستان سے آنے والی خبریں ایک بار پھرمعاملات کی سنگینی کا احساس دلاتی نظر آتی ہیں لدھا میں سیکورٹی فورسز پر ہونے والا حملہ جسمیں فورسز کا بھاری نقصان ہوا۔ اُس کے بعد اُسی علاقے میں مقامی برگیڑئیر کو خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا لیکن وہ حملے میں محفوظ رہے۔ پھر اس کے بعد کڑمہ، سپنہ میلا اور لدھاکے مقام پر فورسز اور طالبان میں جھڑپیں جبکہ دوسری طرف یہ اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ علاقے میں کالعدم تحریک طالبان کے افراد کو بھی دیکھا گیا ہے۔جو وانا تک آئے اور یہی نہیں فورسز پر ہونے والے حملوں کی ذمہ داری بھی کالعدم تحریک طالبان نے قبول کی۔۔اب اس ساری صوتحال میں کئی سوالات زہن میں آتے ہیں جنکا جاننا ضروری تھا۔
اب اس ساری صوتحال میں کئی سوالات زہن میں آتے ہیں جنکا جاننا ضروری تھا۔اس لئے وائس پی کے ڈاٹ نیٹ کی جانب سے ہم نے جنوبی وزرستان سے تعلق رکھنے والے کچھ اہم لوگوں سے بات چیت کی اور ان سے بدلتے ہوئے حالات سے متعلق پوچھا تو شکتوئی جرگہ اور محسود گرینڈ جرگہ کے ممبر ملک سعید انور محسود نے بتایا کہ لوگوں کو امید تھی کہ راہ نجات کے بعد یہاں کے رہنے والوں کو مشکلات سے نجات مل جائے گی لیکن اب حالات دیکھ کر لگتا یہ ہے کہ یہ نجات قوم محسود سے تھی کیونکہ آجکل حالات پھر سے بگڑ گئے ہیں اور وہی چہرے جو پس منظر میں چلے گئے تھے وہ پھر لوٹ آئے ہیں جنکی وجہ سے اس قوم نے اپنا علاقہ چھوڑا،اربوں روپے کا نقصان ہوا اور اس علاقے کا حلیہ تک بگڑ گیا لیکن اتنی قربانیوں کے باوجود وہی معاملات دوبارہ شروع ہو گئے ہیں
۔قوم محسود ایک بار پھر نئے انداز کے ساتھ نشانے پر ہے۔پہلے تو ہم امن خراب کرنے والوں سے اپنے اسلحے کے زریعے نمٹ لیتے تھے لیکن اب تو یہاں کے لوگ لاسئنس والا اسلحہ بھی نہیں رکھ سکتے مطلب اب کی بار محسود قوم بے بس ہونے کے ساتھ ساتھ نہتی بھی ہے۔دوسری طرف سکیورٹی فورسز پر حملے کے بعد عام لوگ مشکل میں پڑ جاتے ہیں خاص طور پر شکتوئی واقعے کے بعد جو مقامی افراد پر جو تشدد ہوا وہ تاریخ میں کبھی نہیں ہوا تھا۔عام لوگ پریشان ہیں کہ اب ہو گا کیا کیونکہ اب بدترین حالات ہیں۔علاقے میں ایک بار پھر خوف کی فضا ہے۔اسی حوالے سے جب کوٹکئی کے علاقے کے ایک مقامی شخص رحمت شاہ محسود سے بات کی گئی تو انھوں نے بتایا کہ اب ایک بار پھر حالات بہت خراب ہیں لوگ ایک بار پھر ہجرت کرنے کی تیاری کرتے نظر آتے ہیں۔سمجھ نہیں آتی کہ ٓاخر یہ کون لوگ ہیں کیونکہ سب نے نقاب اُوڑھے ہوتے ہیں۔یہ کہاں سے آتے ہیں اور کہاں جاتے ہیں کچھ پتہ نہیں چلتا۔اگرچہ اب تو بارڈر پرفنسنگ بھی ہے اور انتہائی سیکورٹی بھی ہے پھر بھی معاملات سمجھ نہیں آرہے ہیں۔ممبر خیبر پختونخوا اسمبلی مولانا عصام الدین محسود جو کچھ ہی روز قبل ہی شکتوئی گئے تھے نے اپنے وزٹ سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ وہاں پر ایک علاقہ جسکا نام شین سترگے ڈپو ہے جب ہم وہاں پہنچے تو وہاں پر لوگ اپنے گھروں سے باہر نکلے ہوئے تھے ہم نے اُن سے پوچھا کہ آپ یہاں کیوں نکلے ہوئے ہیں تو انھوں نے بتایا کہ حملے کے بعد سرچ جاری ہے جو کافی پر تشدد ہے۔خواتین اور بچے بھی بے حد خوف زدہ تھے۔اس علاقے کے حالات کافی خراب تھے۔انھوں نے بتایا کہ جنوبی وزیرستان میں نان کسٹم پیڈگاڑیوں میں کئی مشکوک افراد نظر آتے ہیں جنکو کوئی کچھ کہہ نہیں سکتا۔کیونکہ آپکو پتہ نہیں ہوتا کہ یہ کون ہیں۔
ان تمام افراد سے بات کر کے اندازہ ہوا کہ وہاں سے آنے والی خبروں کے پیچھے واقعی بہت کچھ ہے جسکا اظہار کوئی بھی کھل کر نہیں کر رہا سوائے پشتون تحفظ مومنٹ سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیکن ایک بات جو کھل کر سامنے آئی وہ یہ تھی کہ جنوبی وزیرستان کے وہ علاقے جو محسود علاقے جانے جانتے ہیں وہاں ایک بار پھر وہی کہانی شروع ہوگئی ہے جسکے خاتمے کے لئے 10لاکھ افراد بے گھر ہوئے اور سینکڑوں عمائدین موت کے منہ میں چلے گئے لیکن اتنی قربانیوں کے بعد بھی نقاب پوش عناصر آج بھی اُنکے سروں پر مسلط ہیں اور ایک بار پھر ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی جارہی ہے جسمیں ایک اور ہجرت محسود باشندوں کا مقدر نظر آتی ہے۔۔۔