August 17th, 2020

 فرزانہ علی
پشاور 


کالعدم تحریک طالبان کی ویب سائٹ عمر میڈیا کی 17اگست کی اشاعت کے مطابق جماعت الاحرار اور حزب الاحرار تحریک طالبان پاکستان میں شامل ہوگئی ہیں ۔سائٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق جماعت الاحرار کے امیر عمرخالد خراسانی اور حزب الاحرار کے امیر عمرخراسانی نے تحریک طالبان پاکستان کے امیر  مفتی نور ولی عرف ابو منصور عاصم  کے ساتھ ہجرت اور جہاد پر بیعت کرتے ہوئے اپنی سابقہ جماعتوں (جماعت الاحرار اور حزب الاحرار) کے خاتمے کا اعلان کیا اور اس بات کا عہد کیا کہ ان کے جماعتیں تحریک طالبان
پاکستان کے شرعی اُصولوں کی پابند ہونگی

تحریک طالبان پاکستان نے اُن کو خوش آمدید کہا اور رسمِ بیعت میں مسلح مجاہدین نے فائرنگ سے ان کا استقبال کیا۔ویب سائٹ پر جماعت الاحرار اور حزب الاحرار کے قائدین کی کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر مفتی نور ولی بیعت دینے کے مناظرکی تصاویر بھی پوسٹ کی گئیں ہیں۔ویب سائٹ پر دئیے گئے بیان کے مطابق تحریک طالبان پاکستان، جماعت الاحرار اور حزب الاحرار اب ایک تنظیم یعنی ٹی ٹی پی میں رہتے ہوئے کام کریں گے۔بیان میںمزید بتایا گیا کہ وہ دیگر مسلح گروہوں کو بھی اتفاق کی دعوت دیتے ہیں اور دشمن کو بھی یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہمارا یہ مقدس جہاد اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک پاکستان سے باطل طاغوتی نظام کا خاتمہ نہ ہوجائے اورمظلوم ظالم کے پنجوں سے آزاد نہ ہوجائے ۔

 

 حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد 2014  میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان میں اندرونی اختلافات کی بنیاد پرایک نئی تنظیم کا اعلان کیا گیاجس کے لئے قاسم خراسانی کو امیر مقرر کیا گیا ۔ تاہم گروپ کی کمان کمانڈر عمر خالد خراسانی نے سنبھال رکھی تھی ۔لیکن 2017 میں ایک بار پھر اختلافات ابھر آئے اور عمر خالد خراسانی کے سب سے قریبی ساتھی نے حزب الاحرار کے نام سے نئی تنظیم کا اعلان کیا اور اسکی وجوہات جماعت الاحرار کی چند کارروائیاں اور پالیسیاں بتائی گئیں ۔ان تمام اختلافات سے قبل یہ تنظیم پاک فوج، خفیہ اداروں اور حکومت کیلئے درد سر بنی ہوئی تھی اور قبائلی علاقوں سمیت پشاور تا کراچی فوج مخالف سرگرمیوں میںمصروف رہی۔اب لگ بھگ سات سال بعد یہ تما م اگرایک بارپھر اکھٹے ہونے کا دعوی کر رہے ہیں تو اب ان کی سرگرمیاں کیا ہونگی اور کیا یہ تنظیم پہلے کی طرح منظم دہشت گرد تنظیم کی طرح اُبھر پائے گی اور کیا دوبارہ اتفاق کے پیچھے کوئی انٹرنیشنل ہاتھ ہے اور اگر ایسا ہے تو اُس کا نیا ایجنڈا کیا ہو سکتاہے۔یہ وہ بنیادی سو الات ہیں کہ جن کو لے کر ہم نے کچھ تجزیہ نگاروں سے بات چیت کی ۔سینئر تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسفزئی نے اسکو بہت اہم اور بڑی ڈیویلپمنٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بڑی حیران کن بات ہے کہ اتنے پرانے اختلافات اور الزام تراشیاں ہونے کے باوجود اب یہ اکھٹے ہوگئے ۔اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں ایک یہ کہ شاید انکو احساس ہو گیا کہ تقسیم در تقسیم کا عمل اُنکی کمزوری کا سبب بن رہا ہے جبکہ دوسری طرف سپانسر اور ہینڈلر یعنی کہ بھارت اور افغانستان کی طرف سے بھی دباﺅ تھا کہ مسائل کو ختم کیا جائے۔ آپ نے دیکھا کہ بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں بھی اکٹھی ہوئیں اور انھوں نے گوادر سے کراچی تک بڑی کاروائیاں کیں۔جس سے یہ تاثر سامنے آیا کہ اُنکے حملے موثر ثابت ہوئے تو یہ ایک نمونہ تھا کہ اکھٹا ہونے سے طاقت آ ئے گی۔دوسری طرف چونکہ کالعدم تحریک طالبان سمیت ان دو گرپوں کے سینئر رہنما  جن کے اختلاف تھے وہ نہیں رہے تو یہ نئے لوگ ہیں انکے لئے آسان تھا کہ وہ اکھٹے ہو کر کام کریں۔

 

وائس ڈاٹ پی کے کا یہ سوال کہ انکے دوبارہ اتحاد سے کیا خیبر پختونخوا اور قبائلی اضلاع میں دوبارہ بڑے حملوں کا خطرہ ہے تو رحیم اللہ یوسفزئی نے بتایا کہ فوری طور پر تو ایسا نہیں ہو گا کیونکہ دوسری طرف افغانستان میں طالبان مذکرات کا عمل چل رہا ہے لیکن  اگر وہ عمل ناکام ہو جاتا ہے تو پھر افغانستان کی زمین ہمارے خلاف شدت سے استعمال ہو سکتی ہے  وزیرستان میں فورسز پر ہونے والے حالیہ حملوں میں سے کچھ کی زمہ داری انہی گروپوں نے تسلیم کی تھی جو اب متحدہونے کا دعوی کر رہے ہیں ۔ رحیم اللہ یوسفزئی  کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان میںان گروپوں کی موجودگی کم ہے وہاں حافظ گل بہادر کے لوگ سر گرم ہیں۔ تاہم اب دیکھنا یہ ہو گا کہ اس اتحاد کے بعد یہ اُن کے ساتھ بھی مل کر کام کریں گے یا الگ الگ ہی کاروائیاں کریں گے۔

 

 دفاعی تجزیہ نگار رستم شاہ مہمند کی رائے رحیم اللہ یوسفزئی سے بلکل مختلف ہے  اُنکا کہنا تھا کہ یہ گروپ اگر اکھٹے ہو بھی جائیں تو اب انکو وہ پذیرائی نہیں ملے گی جو پہلے تھی کیونکہ اب قبائلی علاقے اضلاع کی صورت اختیار کر چکے ہیں اب وہاں کے اکثریتی عوام اپنے حقوق کا تحفظ اور حصول تشدد کی بجائے مناسب طریقے سے چاہتے ہیں۔اس لئے ان علاقوں میں پختون تحفظ مومنٹ کی مقبولیت سب کے سامنے ہے اور اس کے لئے انھوں نے اپنے نمائندے بھی اسمبلیوں میں بھیجے ۔دوسری طرف کسی مہم کے لئے عوام کے ساتھ کے ساتھ کوئی مقصد بھی ہونا چاہیے اب ان تنظیموں کے پاس کوئی واضح مقصد نہیں جو عوام میں مقبولیت حاصل کر سکے  اور جہاں تک بات بڑے حملوں کی ہے تو انکا پوارا سٹکچر تباہ ہو چکا ہے اب دوبارہ پہلے کی طرح بنانا ممکن نہیں اور مزید یہ کہ ان کے ساتھ افغان طالبان کا ساتھ بھی نہیں۔تو پھر وزیرستان میں دہشت گرد کاروائیاں کو ن کر رہا ہے اس سوال پر رستم شاہ مہمند نے جواب دیا کہ وزیرستان یا قبائلی اضلاع میں فوج پر حملوں کے معاملات رہیں گے یہ کچھ چھوٹے گروپ ہیں جوا ٓپریشن سے متاثرہ اور ناراض لوگوں کے ساتھ اکا دُکا کاروائیاں کر رہے ہیں لیکن اُنکا کوئی بڑا مقصد نہ ہے اور نہ یہ کر سکتے ہیں ۔رستم شاہ مہمند کا کہنا تھا کہ جو ناراض لوگ ہیں اُنکی ناراضگی بھی جناح صاحب کا وہ وعدہ ہے کہ جو انھوں نے کہا تھاکہ قبائل کی روایات یا رسم رواج کے خلاف کچھ نہیں ہو گا اور انکی آزادی میں مداخلت بھی نہیں ہو گی لیکن پھر فوج بھی ان علاقوں میں گئی اور دوسرے معاملات بھی ہوئے جسکا ردعمل سامنے آیا.