July 7, 2020
By Farzana Ali
لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں گولیوں سے چھلنی جسم لئے پڑی فریدہ بی بی کے لئے باپ کی طرف سے واراثت میں ملی زمین اس کے لئے کانٹوں کی سیج بن گئی۔۔۔۔
گھر ،زمین اور جائداد اگر عورت کے نام پر ہے اور اگر وہ بیوہ یا یتیم ہے تو معاشرے کا ہر فرد اُسکے مدمقابل ہوتا ہے چاہے اپنا ہو یا پھر پرایا ۔۔صوبائی محتسب کو خواتین کے حق ملکیت سے متعلق 40 شکایات موصول ہو چکی ہیں۔۔فوری نتائج کے حصول میں موجودہ تھانہ کلچر بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔۔۔۔۔
پشاور سنٹرل جیل کے بڑے سے بیرک میں میں قتل کے الزام میں قید خواتین سے ملاقات کے دوارن میری ملاقات دو بہنوں سے ہوئی جنکی عمریں 50سے 60کے درمیان تھیں۔وائس پی کے ساتھ بات چیت کے دوران انھوں نے بتایا کہ اُنکے والدکی وارثت کی وجہ سے وہ آج جیل میں ہیں۔قصہ کچھ یُوں تھا کہ دونوں بہنوں کے حصے میں آنے والی جائداد اُنکے لئے مشکلات کا سبب بن گئی ۔والدین کی زندگی میں تو بھائیوں نے بڑی عمر کی غیر شادی شدہ بہنوں کو برداشت کئے رکھا لیکن والدین کی آنکھیں بند ہوتے ہی بھائیوں نے بھی آنکھیں پھیر لیں اور لگے بہانے تلاشنے کہ کسی طرح بہنوں کے حصے کی زمین بھی انھیں مل جائے اور آخر ایک روز وہ اپنے اس منصوبے میں کامیاب ہو گئے ۔خائستہ گل اور بیگم نے وائس پی کے کو بتایا کہ بھائیوں کے ایک دشمن کے ساتھ ہمیں جو ڑ کر اسے منصوبے کے تحت قتل کیا گیا اور پھرالزام میں ہم دونوں بہنوں کو اندر کر دیا گیا ۔اب نہ تو ہمارے پاس رقم ہے کہ ہم اپنا وکیل کر سکیں اور نہ ہی کوئی ہمارے حق میں بولنے کو تیار ہے ۔یُوں بھائیوں نے بڑی آسانی سے اپنا کام کر لیا اور ہم گھر اور جائداد دونوں سے محروم ہو گئے ۔
یہ کہانی صرف خائستہ گل اور بیگم کی نہیں۔۔ خیبر پختونخوا کی ہزاروں خواتین ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہیں جہاں والدین یا شوہر کی وراثت انکے لئے کانٹوں کی سیج بن گئی۔انہی میں سے ایک لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں گولیوں سے چھلنی جسم لئے پڑی فریدہ بی بی بھی ہے ۔جس پر بھائی اور بھتیجے نے صرف اس لئے فائرنگ کی کہ وہ باپ کی طرف سے ملی وراثت اُنکے نام کرنے کو تیار نہ تھی ۔کیونکہ خیبر پختونخوا اور قبائلی معاشرے میں خصوصا اور ملک بھر میں عموما عورت کے وراثت کے حق کو کوئی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔شاید یہی وجہ تھی کہ خیبر پختونخوا حکومت نے اکتوبر 2019 میں خواتین کے املاک حقوق کے نفاذ کا قانون اسمبلی سے پاس کرایا تاکہ خواتین کو اُسکے موروثی حق ملکیت سے کوئی محروم نہ کر سکے ۔اور اُس کے لئے کام کی جگہوں پر خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے خلاف بنائے گئے قانون کے تحت متعین محتسب کو یہ اضافی زمہ داری سونپی گئی کہ وہ اس نئے قانون کے تحت آنے والے کیسز کو بھی دیکھیں ۔اور یوں خیبر پختونخوا کی خاتون محتسب رخشندہ ناز نے جنوری 2020میں حق ملکیت سے متعلق کیسز سننے کا آغاز کیا ۔وائس پی کے نے رخشندہ ناز سے انٹرویو کے دوران پوچھا کہ اب تک انھیںحق ملکیت سے متعلق کتنی شکایات موصول ہوئی اور اب ایسے کیسز کا سٹیٹس کیا ہے تو انھوں نے بتایا کہ اب تک انھیں 40 شکایات موصول ہو چکی ہیں جن پر کام جاری ہے اور زیادہ تر کیسز کا تعلق صوبائی دارلحکومت پشاور سے ہے جسکے بعدچارسدہ ،مردان ،لکی مروت،بنوں،ڈیرہ اسماعیل خان،نوشہرہ ، صوابی اور ایبٹ آباد سے بھی کیس موصول ہوئے ہیں۔رخشندہ ناز کا کہنا تھا کہ شروع کے چند مہینے ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی تربیت جبکہ عام خاتون کی قانون سے آگاہی اور محتسب تک رسائی کے لئے اہم تھے لیکن بدقسمتی سے کورونا کی عالمی وبا کی وجہ سے معاملات تاخیر کا شکار ہو گئے ۔اگرچہ قانون کے مطابق ہمیں 3روز میں کیس کو متعلقہ ڈی تک پہنچانا اور 6ماہ میں کیس کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے لیکن کئی معاملات ادھورے ہونے کی وجہ سے کئی کیسز تاخیر کا شکار ہیں جبکہ جن شکایات کو تیار کر کے ہم متعلقہ اضلاع بھجوا چکے ہیں وہاں کی انتظامیہ کورونا وائرس سے نمٹنے میں مصروفیات کے باعث عمل درآمد میں ناکام ہے یا پھر احکامات پر عمل درآمد کروانے والے اداروں کی بندش راہ میں رکاوٹ بن گئی ہے ۔ہم نے پوچھا کہ واراثت میں عورت کا حق خیبر پختونخوا اور قبائلی کلچر میں ایک پیچیدہ معاملہ ہے اس لائن پر اگر دیکھیں تو آپکو کن مسائل کا سامنا ہے تو انکا کہنا تھا کہ واقعی عوام کو یہ سمجھانا ایک مشکل کام ہے لیکن دو دہائی کے سماجی کاموں کے تجربے اور قانون سے مکمل آگاہی آپکی کئی مشکلیں آسان کر دیتی ہے لیکن یہاں مسئلہ لوگوں کو اس قانون سے متعلق آگاہ کرنا ہے جب یہ قانون بنا تو کئی خواتین اپنے ایسے مسائل لے کر میرے پاس آئیں جو کسی اور قانون کے دائرے میں آتے تھے ۔پھر انھیں سمجھانا پڑتا ہے کہ اُنھیں کہاں جانا ہے دوسرا اہم مسئلہ تھانہ کلچر ہے ۔کیونکہ میرے پاس آنے والی شکایات کے حل اور جائداد کے حصول میں عمل درآمد میں متعلقہ علاقے کے تھانے کا بھی اہم رول ہوتا ہے اس لئے اُنکا بھی اس قانون سے مکمل آگاہ اور غیر جانبدار ہونا بے حد ضروری ہے جو کہ عام طور پر ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے اس لئے ہمیں پولیس کی بھی تربیت کا اہتمام کرنا ہو گا ۔معاشرتی سطح پر پنپتی پدرسری معاشرے کی سوچ کو بھی رخشندہ ناز نے خواتین کے حقوق کے حصول میں ایک رکاوٹ قرار دیا ۔معاشرے میں جہاں سوتیلے رشتے ایک آنکھ برداشت نہیں کئے جاتے وہاں عورت کے جائداد کے حق پر قابض ہونے کے لئے سب سوتیلے مرد بھی سگے ہو جاتے ہیں۔
گھر کے اندر کے رشتوں یا پھر قبضہ مافیاکی طرف سے خواتین کو املاک کے حق سے محروم کرنا صوبائی محتسب کے پاس آنے والی ہر خاتون کی تقریبا ایک سی ہی کہانی ہے ۔کئی کیسز میں اولاد نانا کی طرف سے والدہ کو ملی جائداد کے لئے بھی عدالتوں کے چکر لگانے پر مجبور ہے ۔گھر ،زمین اور جائداد اگر عورت کے نام پر ہے اور اگر وہ بیوہ یا یتیم ہے تو معاشرے کا ہر فرد اُسکے مدمقابل ہوتا ہے چاہے اپنا ہو یا پھر پرایا ۔۔