July 5, 2020
By Ahmed Saeed
LAHORE
کپٹین خالد تنویر ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے 25 بہترین سال پی آئی اے میں بطور پائلٹ کے گزارے تھے مگر اب انکا نام بھی مشکوک یا جعلی لایسنس رکھنے والے پائلٹس کی لسٹ میں آ گیا ہے جو وفاقی وزیر شہری ہوا بازی غلام سرور خان نے قومی اسمبلی میں پیش کی تھی. غلام سرور خان نے انکشاف کیا کے پاکستان کے 860 میں سے 262 کے لائسنس جعلی یا مشکوک ہیں.
دنیا بھر کے میڈیا نے اس بیان کو اپنی شہ سرخیوں کا حصہ بنایا جس کے بعد یورپین یونین نے پی آی اے کی یورپی ممالک کے لئے فضائی سروس چھ ماہ کے لئے معطل کردی جب کے ویت نام اور ملیشیا سمیت کئی ممالک نے پاکستانی پائلٹس کو گراؤنڈ کر دیا.
برطانیہ نے پی آئی اے کی لندن. برمنگھم اور مانچسٹر کے لئے پروازیں بند کر دی.
مختلف سیاسی حلقوں نے وفاقی وزیر کے اس بیان کو پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی سازش اور جاری شدہ لسٹ کو پی آئی اے پر خودکش حملہ قرار دیا ہے
پاکستانی پائلٹس کی نمائندہ تنظیم پالپا کی جانب سے وزیر ہوا بازی کے بیان کی مذمت کی گی اور کہا کے پائلٹس کی لسٹ اصل میں خود ایک جعلی دستاویز ہے
کپٹین رٹائرڈ خالد تنویر سمجھتے ہیں حکومت نے لسٹ جاری کر کے پائلٹس کی تضحیک کی ہے اور معاملے کو بگاڑ دیا ہے.خالد تنویر کے مطابق حکومت کو اس مسلے پر ایک جوڈیشل کمیشن بنانا چاہئے جو تمام معاملے کا از سر نو جائزہ لے.
ایک اور رٹائرڈ پائلٹ کپٹین امتیاز بخاری کے مطابق انکا فلائنگ کیریئر چالیس سال سے زیادہ کا ہے اور وہ پاکستان ایئر فورس اور پی آئی اے میں لمبے عرصے تک خود انسٹرکٹر بھی رہے ہیں مگر اب جو سلوک ان کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے اس پر وہ دلبرداشتہ ہیں.
جب رٹائرڈ پائلٹس کے مشکوک لایسنس والی لسٹ سے مطلق اٹھاۓ گئے اعتراضات وائس پی کے ڈاٹ نیٹ نے وزارت شہری ہوا بازی کے ترجمان کے سامنے رکھے تو انکا موقف تھا کے ابھی انکوائری جاری ہے. انکا مزید کہنا تھا کے لسٹ میں موجود تمام پائلٹس نے کوئی نہ کوئی گڑ بڑ ضرور کی ہے چاہئے انکا کتنے ہی سالوں کا تجربہ کیوں نہ ہو.
جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ لسٹ میں موجود پائلٹس کو شو کاز نوٹس جاری کرنے کی بجاۓ سیدھا لسٹ منظر عام پر لا کر کیا سول ایویش نے اپنے ہی رولز کی خلاف ورزی نہیں کی، تو ترجمان نے یہ کہ کر فون بند کر دیا کے انہوں نے میٹنگ میں جانا اور وو اس سوال کا جواب بعد میں دیں گے.
اس کے بعد ان سے بار ہا رابطہ کرنے کی کوشش مگر انہوں نے ہمارے فون کا جواب نہیں دیا
ہوا بازی کے امور پر گہری نظر رکھنے والے سینئر صحافی طاہر عمران میاں نے وائس پی کے ڈاٹ نیٹ کو بتایا کے حکومت نے اس تمام معاملے کو مس ہینڈل کیا ہے . انکا کہنا تھا کے پائلٹس تو شاید اس مسلے سے جلد نکل آییں مگر پاکستان کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان کو صیح کرنے کے لئے ایک مکمل اسٹریٹجی بنانی پڑے گی.
پی کے 8303 کے حادثے کی انکوائری کے بعد جس طرح سے حادثے کی تمام ذمےداری پائلٹس پر ڈال دی گی اور مشکوک پائلٹس کی لسٹ منظر عام پر لا ی گی ہے. اس سے حکومت کی اہلیت اور نیت پر کئی سوالیہ نشان لگ چکے ہیں.
رٹائرڈ پائلٹس اور ایوی ایشن ماہرین نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کے مشکوک لایسنسز والے معاملے کا دوبارہ جائزہ لے اور اس سارے عمل کو پبلک کرنے سے گریز کرے تاکے پی آئی اے کی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا جا سکے