جولائ 21, 2020
فرزانہ علی
دیر
میرے سامنے امین اللہ کا سپاٹ چہرہ تھا اور ہاتھ میں نائلہ کی لاش کی تصویر ۔۔دونوں چہروں میں ایک قدر مشترک نظر آئی اور وہ تھی بے خبری اور بے بسی-
سیاسی رہنماوں کے قول و فعل میں تضاد
دیر کے علاقے لعل قلعہ، ثمر باغ اور تیمرگرہ میں سارے دن کی بھاگ دوڑ اور کئی پہاڑوں پر خطرناک راستوں کو عبور کرنے کے بعد جب واپسی کے لئے گاڑی میں بیٹھی تو ایک ساتھی کی طرف سے موبائل پر ایک وڈیو کلپ موصول ہوا جس میں خیبر پختونخوا اسمبلی میں جماعت اسلامی کے ممبر عنائیت اللہ خان زورشور سے تقریر کر رہے تھے اُنکا کہنا تھا کہ نائلہ کا قتل ہوا ہے اس پر کوئی دو رائے نہیں ۔اس پر تو زیردفعہ 302 کا کیس بنتا ہے ۔اس پر تو پولیس گرفتاری کرے اور جو مجرم ہے اس کو سزا ملے لیکن جب اس کیس کو کم عمری کی شادی کے ساتھ نتھی کیا جاتا ہے تو یہ ٹھیک نہیں کیونکہ کم عمری کی شادی والے مسئلے پر سینٹ کی پروسیڈنگ اور اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے موجود ہے اس لئے یہاں جو قانون بنیں گے وہ اسلام کے مطابق بنیں گے۔کیونکہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے ۔۔ امریکہ نہیں۔
اور میری آنکھوں کے سامنے محبت کوٹو کی نائلہ کی لاش اور اُس کے گھر
کے مناظر گھوم گئے ۔جہاں تک پہنچنے کے لئے ہم نے دو گاڑیاں بدلیں کیونکہ وہاں تک جانے کا راستہ انتہائی دشوار گزار تھا اور پھر نائلہ کا گھر اور اس کے مکین ۔ ۔گھر کیا تھا۔ پر مٹی، گارے اور کچھ اینٹوں سے تعمیر کیا
گیا ایک کمرہ،کچن کے نام پر ایک چھپر اور باتھ روم کے نام پر چاردیواری
جس کو کپڑا لگا کر پردہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔
نامزد ملزمہ کے مطابق
چھپرکے نیچے بُرقعہ اوڑھے بیٹھی نائلہ کی سوتیلی ماں گل سبھین نے بتایا کہ اس کی نائلہ کے والد کے ساتھ محبت کی شادی ہے ۔گل سے پہلے اسکی بیوی، جو کہ نائلہ کی سگی ماں تھی نے شوہر کی دوسری شادی کے بعد واپس والدین کے گھر چلی گئی ۔اور نائلہ کو بھی اپنے ساتھ لے گئی ۔سات سالہ خانگی جھگڑوں کے بعد نائلہ کی ماں نے طلاق لی اور دوسری شادی کرلی جبکہ نائلہ واپس باپ کے پاس آگئی۔ نائلہ کے دادا سردار خان کے مطابق اُسکی سوتیلی ماں کے ظلم سے تنگ آکر اُنھوں نے فیصلہ کیا کہ نائلہ کو بیاہ دیا جائے اور اس کے لئے دادای کے رشتہ داروں میں موجود 13 سالہ امین اللہ کو چنا گیا ۔باپ نے بھی حامی بھر لی اور چار ماہ قبل منگنی کے ساتھ نکاح ہو گیا ۔والد روزگار کے لئے کراچی میں تھا تو نائلہ کی رُخصتی کا فیصلہ ہوا اور شادی ہو گئی ۔میں نے جب گُل سے پوچھا کہ آپ کے اُوپر الزام ہے کہ آپ کا رویہ نائلہ کے ساتھ ٹھیک نہیں تھا تو وہ بولی کہ سوتیلی ہونے کی وجہ سے اُسے بدنام کیا جا رہا ہے حالانکہ اُس نے جو بھی کیا نائلہ کے اچھے کے لئے کیا ۔میں نے جب سوال کیا کہ کیا آپ نے رخصتی والے روز نائلہ کو کچھ گولیاں دیں ۔تو اس نے مجھے پنٹاکسل ٹیبلٹ کا ایک پیکٹ دکھایااور بتایا کہ اس کے ساتھ ایک پُونسٹان دی تھی جس پر اُن لوگوں نے ڈرامہ بنا دیا حالانکہ جب بھی میں تھکن محسوس کرتی ہوں یا مجھے جسم میں درد ہوتا ہے میں یہ گولیاں لیتی ہوں ۔۔لیکن سوال یہ تھا کہ 12سالہ بچی کو یہ دوائی دینا مناسب تھا یا نہیں۔۔اس سارے قصے میں پولیس بار بار مشتبہ گولیوں کا ذکر تو کر رہی تھی اور اُسکی ایف آئی آر میں بھی یہ بات موجود تھی لیکن انھیں نہ تو گولیوں کا نام پتہ تھا نہ ہی انھوں نے جاننے کی کوشش کی اس لئے وہ میڈیسن تا حال گل کے پاس ہی تھی ۔گل کی خود کو بے گناہ ثابت کرنے کی دُہائیوں اور دادا کی اُسے قصور وار بیان کرنے کے قصے کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ محبت کوٹو میں کوئی سکول نہیں ۔لڑکے تعلیم کے لئے لعل قلعہ جاتے ہیں جبکہ لڑکیاں تعلیم حاصل نہیں کرتیں ۔والدین کے بقول لڑکیاں پرایا دھن ہوتی ہیں اُ ن پرخرچ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔نائلہ کے میکے کے بعد جب ہم اُس کے سسرال پہنچے تو امین اللہ کو دیکھ کر دل دکھ گیا ۔ 13سالہ امین اللہ مدرسے میں تعلیم حاصل کر رہا تھا ۔اس کے والد وزیر خان کو لگتا تھا کہ مدرسے کی تعلیم ہی کافی ہے ۔ بچوں کی کم عمری میں شادی ایک جرم ہے کیا وہ یہ جانتا تھا ۔۔میرے اس سوال پر اُس نے کہا کہ میں نے نائلہ کو سوتیلی ماں کے ظلم سے بچانے کے لئے یہ کیا لیکن مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ اتنی بیمار ہے کہ تین روز میں مرجائے گی ۔سپاٹ چہرہ لئے بیٹھے امین سے جب میں نے اُسکی دلہن کے بارے میں پوچھا تو اُس نے بتایا کہ میں نے تو اُسے دیکھا تک نہیں۔
میرے سامنے امین اللہ کا سپاٹ چہرہ تھا اور ہاتھ میں نائلہ کی لاش کی تصویر ۔۔دونوں چہروں میں ایک قدر مشترک نظر آئی اور وہ تھی بے خبری اور بے بسی ۔
کم عمری کی شادی سے متعلق قانون میں ارباب اقتدارکی عدم دلچسپی
نائلہ اور امین اللہ کی کم عمری کی شادی کی کہانی اس لئے منظر عام پر آگئی کہ نائلہ مر گئی ۔۔ورنہ تو ایسی کئی نائلائیں چھوٹی عمر میں بیاہ دی گئیں لیکن نہ قانون نافذ کرنے والوں کو پتہ چلا نہ ہی میڈیا کو ۔کیونکہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔جہاں کم عمری کی شادی پر اعتراض نہیں ہوسکتا۔۔ہاں کوئی مر جائے تو پھر دیکھیں گے ۔۔یہی وجہ ہے کہ اطلاعات کے مطابق خیبر پختونخوا چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر کمیشن کے پاس 200 سے زائد کم عمری کی شادیوں کی شکایات کا اندارج تو ہے لیکن کم عمری کی شادیوں پر پابندی کا بل ایک سال سے زیادہ ہونے کے باوجود صوبائی کابینہ کی منظوری کا انتظار کر رہا ہے.کیونکہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔جہاں کم عمری کی
شادی پر بات نہیں ہوسکتی۔۔۔
دوسری جانب پورے پاکستان میں گھریلو تشدد کا قانون موجود ہے لیکن خیبرپختونخوا وہ واحد صوبہ ہے جہاں ابھی تک گھریلو تشدد کو روکنے کے لیے کوئی قانون نہیں۔کیونکہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔جہاں گھریلو تشدد نجی معاملہ ہے۔اور جہاں تک بات بچوں کے ساتھ ذیادتی کی ہے تو وہ بھی روز کا معمول ہے لیکن نتیجہ کچھ نہیں ۔۔کیونکہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔جہاں کرائے کے لبرل پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے ایسی باتوں کو ہوا
دیتے ہیں۔۔اس اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں کو شاید معلوم ہے کہ
نہیں کہ یہ سوال کہ نائلہ کیسے مری۔ یہ قتل ہے یا طبعی موت ؟
اس سوال کا جواب جاننے کے لئے لاش کو دیر سے پشاور لانا پڑا۔ کیونکہ اتنے بڑے ضلع میں پوسٹ مارٹم کی سہولت نہیں تھی ۔ ۔نکاح خوان کا بیان لے کر اُسے فارغ کر دیا گیا ۔۔نکاح کی کوئی رجسٹریشن نہیں کیونکہ اسکا وہاں رواج نہیں ۔اور قانون بنانے والے اس بحث میں مصروف ہیں کہ شرعی معاملات کو نہ چھیڑا جائے ۔۔گھریلو تشدد کا بل بھی اسی قضیے کا شکار ہو کر ایک دہائی سے لٹک رہا ہے اور یہی حال چائلڈ میرج ریسٹرین ایکٹ کے ساتھ بھی ہے ۔ اس دوارن میں نے کئی عورتوں ،لڑکیوں اور بچیوں کو مرتے ،جلتے اور گولیاں کھاتے دیکھا بھی اور اُنکی سٹوریاں کور کیں کہ شاید قانون بنانے والوں کے دلوں پران مظلوموں کی آہیں اثر کریں لیکن اب تک ایسا نہ ہو سکا اور اسی بحث مبا حثے میں نائلہ بھی مر گئی