June 25, 2020

By Ahmed Saeed


LAHORE

پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین عابد ساقی نے قاضی فائز عیسیٰ کو قتل کرنے کی دھمکیوں کی مذمت کرتے ہوئے ہوئے موجودہ صورت حال کو عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے خوفناک قرار دیا.

بدھ کی شام کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے اسلام آباد پولیس کو ایک درخواست دائر کی جس میں یہ کہا گیا تھا کے ایک شخص نے ویڈیو بنا کے ان کے شوہر کو سر عام قتل کرنے کی دھمکی دی ہے اس لئے اسلام آباد پولیس فوری ایف آیی آر درج کر کے متعلقہ شخص کے خلاف کاروائی عمل میں لاے. انہوں نے درخواست میں موقف اختیار کیا کے جن لوگوں نے وحید ڈوگر کے ذریعے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس درج کروایا تھا وہ ہی لوگ ان دھمکیوں کے اصل محرک ہیں.
تاہم پولیس نے یہ کہ کر معاملہ ایف آی اے کو بھجوا دیا ہے کے دھمکی سوشل میڈیا کے ذریعے دی گی ہیں اس لئے اس معاملے کی تفتیش سائبر کرائم ونگ ہی کر سکتا ہے.

بعد ازاں سوشل میڈیا پر وہ دھمکی آمیز ویڈیو کلپ وائرل ہو گیا جس میں آغا افتخار الدین نامی ایک مولوی منبر سے تقریر کرتے ہوئے یہ کہتا ہے جو شخص بھی مالی بد عنوانی میں ملوث ہو، چاہئے وہ فائز عیسیٰ یا نواز شریف یا زرداری ہو ، ان کو فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑے کے مار دینا چاہئے.
آغا افتخارکا مزید کہنا تھا کے ہلاک کیے گئے شخص کی لاش تب تک اس کے اہلخانہ کے حوالے نہ کی جب تک وہ اس گولی کی قیمت نہ ادا کر دیں جس سے اس شخص کو ہلاک کیا گیا ہو.

عابد ساقی کا کہنا تھا کے مولویوں کے ذریعے ججز اور سیاسی قیادت کو دھمکیاں دلوانا دراصل عدلیہ اور سیاست دانوں کو ایک ساتھ بدنام کرنے اور انھیں خوف زدہ کرنے’کی ایک مذموم کوشش ہے. انکا مزید کہنا تھا کے پاکستان بار کونسل اس عمل کی شدید مذمت کرتی ہے اور پاکستان بھر کے وکلاء قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ کھڑے ہیں.

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر قلب حسن نے بھی وائس پی کے ڈاٹ نیٹ سے بات کرتے ہوئے جسٹس فائز عیسیٰ کو دی جانے والی دھمکیوں کی مذمت کی. انکا مزید کہنا تھا کے مولوی کو جج کے حوالے سے ایسا بیان نہیں دینا چاہئے تھا اور یہ بیان عدلیہ کی آزادی کے منافی ہے.

یہ دھمکی آمیز بیانات ایسے وقت میں سامنے آے ہیں جب سپریم کورٹ کے دس رکنی فل کورٹ بینچ نے قاضی فائز عیسیٰ اور مختلف بارز کی آینی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے ان کیخلاف دائر صدارتی ریفرنس خارج کر دیا ہے. بینچ کے ایک رکن جسٹس یحییٰ آفریدی نے قاضی فائز عیسیٰ نے پٹیشن کو خارج کر دیا تھا تاہم انہوں نے باقی پٹیشنز کو منظور کرتے ہوئے ریفرنس کالعدم قرار دیا تھا.

فل کورٹ بینچ کے سات ارکان نے اپنے مختصر فیصلے میں ایف بی آر کو ہدایت کی تھی کے وہ اس فیصلے کے آنے کے بعد ساٹھ دنوں کے اندر قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور ان کے بچوں کو ان کی لندن کی جائیدادوں کے حوالے سے نوٹسز جاری کرے اور 75 دن میں کاروائی مکمل کر کے رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجواے، جو رپورٹ دیکھ کر مزید کاروائی کا فیصلہ از خود کرے گی.
تاہم تین ججوں جسٹس مقبول باقر ، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس منصور علی شاہ نے معاملہ ایف بی آر کو بھجوانے کی مخالفت کی تھی.