وہ خبر جو مین سٹریم میڈیا نہیں دکھاتا۔۔۔

1795
Farzana Ali

وزیرستان میں نا معلوم افراد کا سایہ؟

فرزانہ علی

گزشتہ سال کی بات ہے کہ جب میں شمالی وزیرستان  کے علاقےمیرعلی میران شاہ کے بازاروں میں عوام کی امن سے متعلق رائے لے رہی تھی تو کچھ لوگ  میرے سادہ سے سوالوں کو ہنسی میں اڑا دیتےاورمیں حیران ہوتی کہ ایک خاتون صحافی کا یوں اکیلے ان علاقوں میں سفرکرنا اوران بازاروں میں کھڑے ہو کرسوال کرنا کیا امن کی دلیل نہیں تو جواب ملا آپ اس لئے یہاں ہیں کہ آپکو آنے دیا گیا ورنہ حالات ہم غریبوں کےاب بھی ویسے ہی ہیں بس اندازحکمرانی بدل گیا ہے۔

ایک نوجوان جس نے کپڑے سے اپنا منہ ڈھانپ رکھا تھا میرے پوچھنے پر کہ منہ چھپا کر کیوں بات کر رہے ہو، بولا کہ اگرمیں اپنی شناخت آپکے کیمرے پر لے آوں اور کل نامعلوم افراد مجھے قتل کردیں تو کیا ہوگا ؟

میں نے کہا اب کہاں نامعلوم افراد ۔۔۔اب تو امن آگیا ۔

وہ ہنس پڑا ۔

اسکی ہنسی میں کچھ تھا ۔۔ وہ کیا تھا ۔۔ اس سوال کا جواب اب ملنا شروع ہوگیا ہے۔

وزیرستان میں نامعلوم افراد کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں اوران پرحکومتی خاموشی کئی سوالات جنم دے رہی ہے۔

ایک طرف نامعلوم افراد کی وزیرستان میں بڑھتی ہوئی کارروائیاں تو دوسری طرف وزیرستان میں ہی سیکورٹی فورسز پر ہونے والے حملے (اگرچہ ان میں سے اکثر کی مکمل تفصیل مین سٹریم میڈیا پرنہیں آتی)۔ لیکن دونوں معاملات پرحکومت کی مکمل خاموشی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔

چند روز قبل شمالی وزیرستان کےسب ڈویژن میر علی میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سےایک ہی خاندان کے تین افراد جاں بحق ہوگئے۔ پولیس کے مطابق واقع میں فرمان اللہ اورزبیداللہ موقع پر جاں بحق ہو گئے جبکہ شدید زخمی ہونیوالے امان اللہ  کو فوری طورپرٹی ایچ کیو ہسپتال میرعلی منتقل کیا گیالیکن ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاکر وہ بھی تھوڑی ہی دیر بعد جاں بحق ہوگئے۔ پولیس زرائع کے مطابق یہ واقع اس وقت پیش آیا جب تینوں افراد موٹرسائیکل پر سوارحسوخیل روڈ پرگلشن اڈہ کے قریب جارہے تھےکہ نامعلوم نقاب پوشوں نے اچانک فائرنگ کرکےان کو نشانہ بنایا اورنامعلوم نقاب پوش واردات کے بعد فرارہونے میں کامیاب ہوگئے- یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ زبیداللہ سی ایس ایس آفیسرتھے اورداوڑ قبیلے کےگاوں حسوخیل کی نمایاں فیملی سے تعلق رکھتے تھےجبکہ انکے ساتھ جاں بحق ہونیوالے ملک امان اللہ انکے چچا اور فرمان انکے چچازاد بھائی تھے۔

پہلا موقع ہے کہ ملا نذیرگروپ کے ایک اہم سابق کمانڈرکونامعلوم افراد نے نشانہ بنایا ۔ 

دوسری طرف وانا میں نامعلوم افراد نے معروف سابق طالبان کمانڈراورامن کمیٹی کے رکن تحصیل خان پر فائرنگ کرکے شدید زخمی کردیا جبکہ ان کا بھائی حملے میں ہلاک ہوگیا۔

تحصیل خان لاہورمیں جمشید نامی ایک شخص کے ساتھ فروٹ منڈی چلا رہے تھے۔ ضلعی پولیس افسر کے مطابق تحصیل خان اپنی منڈی کے لیے لاہورجا رہے تھے جب یہ واقع پیش آیا۔ واضح رہے کہ وانا میں گڈ طالبان کو حکومت کی طرف سے امن کمیٹی کا نام دیا جاتا ہے جبکہ مقامی افراد ان کو طالبان کے نام سے ہی پُکارتے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق یہ پہلا واقعہ ہے کہ ملا نذیرگروپ کے ایک اہم سابق کمانڈراورامن کمیٹی کے رکن تحصیل خان کونامعلوم افراد نے نشانہ بنایا اورفرارہونے میں بھی کامیاب ہوگئے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف نامعلوم افراد کا یوں قتل عام چاہے خود گڈ طالبان یا امن کمیٹی کے رکن کا ہو، سرکاری افسریا اسکے رشتہ داروں کا، پختون تحفظ مومنٹ سے تعلق رکھنے والے افراد کا، پولیس اہلکاروں کا یا پھر وزیرستان میں فوج پرحملے۔۔۔ کہانی آخرکہاں جا رہی ہے؟

وانا میں قائم مقامی طالبان کے دفاترفوری طورپرختم کئے جائیں؛ جلسے میں مطالبہ

کہانی کی اسی پیچیدگی اورسفاکی کے مدنظرعارف وزیرکے قتل کے خلاف احتجاجی جلسے میں  پشتون تحفظ مومنٹ کے مرکزی رہنماء عبداللہ ننگیال بھٹنی نےحکومت سے مطالبہ کیا کہ قانون کی بالادستی قائم کرکےعلاقے میں امن وامان برقرار رکھا جائے اورعارف وزیرکے قاتلوں کو نہ صرف بے نقاب کرکےگرفتار کیا جائے  بلکہ قوم احمدزئی وزیر کے سامنے سرعام پھانسی دی جائے۔ جلسےمیں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ آج کے بعد وانا میں کالے شیشوں کی گاڑیوں اوراسلحہ کی نمائش پرمکمل پابندی عائد کی جائےاورجنوبی وزیرستان وانا میں قائم مقامی طالبان کے دفاترفوری طورپرختم کئے جائیں تاکہ یہاں کے رہنے والے پشتون قبائل سکھ کا سانس لے سکیں ۔

یہ سب حقائق آپکو مین سٹریم میڈیا پرنظر نہیں آئیں گے بلکہ اگرآپ بات کریں کہ وانا یا وزیرستان میں یہ معاملات ہیں تو آپ کی حب الوطنی پرسوال اٹھا دیے جائیں گے۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ صحافی پھر صحافی ہوتا ہے جو دیکھتا ہے وہ لکھتا اورکہتا ہے کوئی چھاپ دے یا چلا دے تو ٹھیک ورنہ تاریخ کے اوراق ان حقائق کو پوری ایمانداری سے قلمبند کر رہے ہوتے ہیں اورایسا ہی ہو رہا ہے نامعلوم افراد کے ہاتھوں جاری اس قتل وغارت گری کی کہانی لکھی جا رہی ہے لیکن اسکا ری ایکشن کس شکل میں سامنے آئےگا فی الحال یہ کہنا مشکل ہے۔

ایک دہائی قبل جب دن رات دھماکے ہو رہے تھے تو میں نے کسی سے سوال کیا کہ اس طرح کا خطرناک ایکشن کیسے ممکن ہے تو جواب ملا کہ یہ ایکشن نہیں ری ایکشن ہے ۔۔۔۔۔ارباب اختیارکو چاہئےکہ ان نا معلوم افراد کا فوری پتا لگائیں اورانہیں انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔

فرزانہ علی کا تعلق پشاورسے ہے اوروہ نجی ٹی وی میں بیورو چیف کی خدمات سر انجام دے رہی ہیں