زیر حراست قیدیوں کو رہا کرنے پر سپریم کورٹ سندھ ہائی کورٹ پر برہم: قیدیوں کی رہائی کھٹائی میں پڑ گی

1217
JAIL CUFFS
آج سپریم کورٹ آف پاکستان میں کورونا وائرس کے پھیلاو کے خطرے کے پیش نظر زیر سماعت قیدیوں کی ضمانت پر رہائی کے لئے درخواست کی سماعت ہی.
 
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے آج کی سماعت میں سندھ  کے قیدوں کو رہا کرنے کے فیصلے  اور اس کے طریقے کار کے خلاف سخت ریمارکس دیے.
 
 چیف جسٹس  کا کہنا تھا سندھ ہائی کورٹ نے  26 مارچ کو قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا اور یک دم ہی فائدہ پانے والے قیدیوں کی فہرستیں بھی بن گی. اس موقع پر بینچ کے رکن جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ لگتا ہے یہ فہرست پہلے ہی بنا لی گئی تھی. 
 
  چیف جسٹس  نے مزید کہا کہ سب نے اپنے اپنے رشتے داروں کو نوازا ہوگا، رشتے داروں کے علاوہ کسی کو ضمانت پر رہا نہیں کیا گیا ہوگا، 
  چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کے کس قانون کے تحت ملزمان اور مجرموں کو ایسے رہا کیا جا سکتا ہے؟ 
 
ان کا مزید کہنا تھا کہ پولیس مشکل سے ملزموں کو گرفتارکرتی ہے  اور  اگر  ایسے  ہی لوگوں کو رہا کرنا ہے تو جیلوں کا سسٹم بند کر دیں.
اس موقع پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے بینچ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کے جیلوں میں وائرس پھیلا تو الزام سپریم کورٹ پر آئے گا،
 
اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کے  عدالت نے قانون کو دیکھنا ہے، کسی الزام کی پرواہ نہیں. جسٹس قاضی امین کا کہنا تھا وبا کی صورت میں  قیدیوں کے تحفظ کیلئے قانون میں طریقہ کار موجود ہے.
 
بینچ نے جیل میں آنے والے کسی بھی نئے قیدی کا تشخیصی ٹیسٹ کروانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت چھ اپریل تک ملتوی کردی.
 
سندھ ہائی کورٹ کے حوالے سے وائس پی کے ڈاٹ نیٹ سندھ بار کونسل کے وائس چیئرمین حیدر امام رضوی سے بات کی تو ان کا کہنا تھا یہ ریمارکس 
غیر مناسب تھے اور اس سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوگی. ان کا کہنا تھا سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ بلکل درست تھا. انہوں نے کہا کے آج سندھ کی جیلوں میں ٧٥ قیدی وو ہیں جنھیں ابھی تک کوئی سزا نہیں سنائی گی. انہوں نے سوال اٹھایا کے اگر وبا پھیل گی اور معمولی جرائم کے الزام میں قید لوگ مر گئے تو اس کا ذمے دار کون شخض ہوگا ؟
 
آج کی سماعت پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان بار کونسل کے ممبر اعظم نذیر تارڑ نے وائس پی کے ڈاٹ نیٹ کو بتایا  سپریم کورٹ  کو ہائی کورٹس کے بارے میں جنرل ریمارکس دینے سے گریز کرنا چاہئے تھا.
 
انہوں نے مزید کہا کے زیر سماعت ملزمان کے بارے میں یہ کہنا کے جرائم پیشہ افراد سڑکوں پر آ جائیں گئے ایک نا مناسب بات ہے کیوں کے سب کو معلوم ہے کے پاکستان میں کتنی آسانی سے پولیس لوگوں کو جھوٹے کسیز میں گرفتار کر لیتی ہے.
  
  اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کے وہ ابھی بھی سمجھتے ہیں کے انسانی ہمددری کے نقطے کو فوقیت دیتے ہوئے اس درخواست پر مناسب فیصلہ صادر کیا جاے گا.
 
اسلام آباد سے تعلق رکھنے’والے وکیل اور سابقہ جیلر عدنان رندھاوا کا کہنا تھا کے جیلوں میں جگہ کی اس قدر  شدید کمی ہے کہ رات کو کچھ قیدی دو بیرکوں کی درمیانی دیوار پر سوتے ہیں جبکہ کچھ قیدیوں کے پاؤں سوتے ہوئے دوسرے قیدی کے چہرے پر ہوتے ہیں.
 
انہوں نے کہا کے اس حوالے سے زیر سماعت قیدیوں کو رہا کرنے کا اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ بلکل مناسب اور قانون کے عین مطابق تھا.
  عدنان رندھاوا نے سپریم کورٹ لی اس تجویز کے کورونا سے متاثر ہونے والے قیدیوں کو جیل میں قرنطینہ میں ہی رکھا جاے سے اختلاف کرتے ہوئے اسے 
نہ قبل عمل قرار دے دیا.
 
“نا  تو جیلوں میں اضافی بیرکس ہیں اور نہ اتنا اضافی عملہ موجود ہے جو جیل میں بناے جانے والا قرنطینہ مراکز کی دیکھ بھال کر سکے”.
 
اس حوالے سے  عدنان رندھاوا نے تجویز دی کے وفاقی حکومت بغیر کوئی وقت ضائع کئے اپنے انتظامی اختیارت کو استمعال کرتے ہوئے زیر سماعت قیدیوں کو فوری رہا کر دے کیوں کہ اگر عدالتی فیصلہ آنے میں دیر ہوگی تو کوئی انسانی المیہ بھی جنم لے سکتا ہے.
 
تاہم اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کے اگر چہ حکومت کے پاس قیدیوں کو رہا کرنے کا اختیار تو موجود ہے مگر ایسے حالات میں جب سپریم کورٹ ماتحت عدلیہ کےبارے میں اس قدر سخت ریمارکس دے رہی ہیں تو حکومت یہ قیدیوں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیسے کر سکتی ہے.