
طلبہ یکجہتی مارچ کے بعد کیے جانے والے بغاوت کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے، لاہور ہائی کورٹ نے وزیرستان سے
تعلق رکھنے والے پنجاب یونیورسٹی کے طالبعلم، عالمگیر وزیر کی درخواست ضمانت مسترد کردی۔
عالمگیر کو 30 نومبر کی شب پنجاب یونیورسٹی لاہور سے مبینہ طور پر لاپتہ ہوگئے تھے، لیکن پھر پنجاب پولیس کی تصدیق کے بعد یہ معلوم ہوا کہ عالمگیراس سے ایک دن قبل لاہور میں ہونے والے طلبہ یکجہتی مارچ پر ریاست مخالف تقریر کرنے کے جرم میں پولیس کی حراست میں ہیں اور ان کے سمیت مارچ کے دیگر شرکاء پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا جا چکا ہے۔
وائس پی۔کے ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ ایسے لوگوں کو اظہارِ رائے سے پاکستان بار کونسل کے نائب چئیرمین، عابد ساقی بھی فیصلے سے مایوس دکھائی دیے۔ انہوں نے محروم کیا جا رہا ہے اور شہریوں کے آئینی حقوق پر کدغن لگائی جارہی ہے جو کہ پورے سماج کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
وائس پی۔کے ڈاٹ نیٹ کو صورتِ حال سے آگاہ کرتے ہوئے تشویش کا اسی مقدمے میں ضمانت پر رہا، ڈاکٹر عمار علی جان نے عالمگیر کے استاد ہونے کی حیثیت سے اظہار کیا
“طلبہ اور اساتذہ بہت مایوس ہیں کہ ایک طالبعلم کو تقریر کرنے پر اغوا کرکے اس پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا، دو مہینے اس کو جیل رکھنے کے بعد ہائی کورٹ سے انصاف کی توقع تھی، آخر اس کو کتنی سزا اور دے سکتے ہیں” عمار جان۔
عالمگیر کے وکلاء کا کہنا تھا کہ وہ اب عالمگیر کی رہائی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔